دل ہے کہ اس نے سیکڑوں فتنے اٹھائے ہیں
ہم ہیں کہ اس کو سینے سے پھر بھی لگائے ہیں
ہنس کر بہ رُوئے بزم غمِ دل چھپائے ہیں
چہرے پہ ہم خوشی کا ملمع چڑھائے ہیں
ایماں کی قوتوں نے دیا ہے مجھے ثبات
غم بجھ گئے ہیں اور تمنا چمک اٹھی
بزمِ تصورات میں جب آپ آئے ہیں
وہ آئے یا نہ آئے مقدر کی بات ہے
ہم منتظر ہیں راہ میں آنکھیں بچھائے ہیں
شاخیں ہیں سربریدہ ہیں غنچے پریدہ رنگ
اہلِ چمن نے دیکھئے کیا گل کھلائے ہیں
ان کی حریمِ ناز کی اللہ رے کشش
سارے جہاں سے کھنچ کے یہاں لوگ آئے ہیں
وہ زندگی کہاں کہ جسے زندگی کہیں
بس تہمتِ حیات نظرؔ ہم اٹھائے ہیں
نظر لکھنوی
(محمد عبدالحمید صدیقی)
No comments:
Post a Comment