Wednesday, 2 September 2020

جو سامنا بھی کبھی یار خوبرو سے ہوا

جو سامنا بھی کبھی یارِ خوبرو سے ہوا
زمانے بھر کا یرش مجھ پہ چار سُو سے ہوا
کہا اشاروں سے میں نے کہ تم پہ مرتا ہوں
جو نطق بند مِرا، ان کی گفتگو سے ہوا
کسی کو بھی نہ ہوس تھی حلال ہونے کی
رواجِ شوقِ شہادت مِرے گلو سے ہوا
جدھر نگاہ کی،۔ جلوہ تِرا نظر آیا
کمالِ کشف مجھے تیری آرزو سے ہوا
عجب گھڑی تھی گریباں پھٹا تھا مجنوں کا
تمام عمر نہ واقف کبھی رفو سے ہوا
حلال ہونے کو صیاد سے محبت کی
قضا جو آئی تو مانوس میں عدو سے ہوا
خدائی کرنے لگا یار بے نیازی سے
بڑا غرور اسے میری آرزو سے ہوا
لگاتے ہیں جو سب آنکھوں سے آبِ زمزم کو
شرف یہ فیض کا چشمہ مری وضو سے ہوا

آغا حجو شرف

No comments:

Post a Comment