Wednesday, 2 September 2020

اس کی جام جم آنکھیں شیشہ بدن میرا

اس کی جامِ جم آنکھیں، شیشۂ بدن میرا
اس کی بند مٹھی میں سارا بانکپن میرا
روز اپنی آنکھوں کے خواب خون کرتا ہوں
ہاۓ! کن غنیموں سے پڑا ہے رن میرا
میں نے اپنے چہرے پر سب ہنر سجائے تھے
فاش کر گیا مجھ کو سادہ پیرہن تیرا
آؤ، آج ہم دونوں اپنا اپنا گھر چن لیں
تم تباہ دل لے لو، خطۂ بدن میرا
دل بھی کھو گیا شاید شہر کے سرابوں میں
اب مِری طرح سے ہے درد بے وطن میرا
ایک دشتِ خاموشی اب مِرا مقدر ہے
یاد بے صدا تیری، زخم بے چمن میرا
مغربی ہوا نے پھر یہ سندیسہ بھیجا ہے
منتظر تمہارا ہے خوشبوؤں کا بن میرا

عبداللہ کمال

No comments:

Post a Comment