Thursday, 10 July 2025

بازار ترے شہر کے بدنام بہت ہیں

 بازار ترے شہر کے بدنام بہت ہیں

چھوٹی سی خوشی کے بھی یہاں دام بہت ہیں

میں کیسے چلوں حوصلے کا ہاتھ پکڑ کر

اس زندگی میں گردش ایام بہت ہیں

ہونٹوں سے بغاوت کی سدا کیسے ہو جاری

واعظ کو حکومت سے ابھی کام بہت ہیں

اس دور میں امید کروں عدل کی کیسے

منصف پہ ہی جب قتل کے الزام بہت ہیں

آغوش میں اور وقت کے باقی ہیں سخنور

غالب بھی کئی، میر بھی، خیام بہت ہیں

یہ شہر بھی محفوظ نہیں قہر خدا سے

ساقی بھی ہیں مے خانے بھی ہیں جام بہت ہیں

وہ ذات ہے واحد وہ ہی خالق وہ ہی رازق

مخلوق نے پر اس کو دئے نام بہت ہیں

امداد و عبادت میں ریا کاری نہ ہو چاند

اخلاص عمل پر وہاں انعام بہت ہیں


چاند اکبرآبادی

No comments:

Post a Comment