کیا دیکھتا ہے حال کے منظر ادھر بھی دیکھ
ماضی کے نقش یاد کی دیوار پر بھی دیکھ
دیکھے ہیں میرے عیب تو میرا ہنر بھی دیکھ
سودا ہے جس میں اپنا انا کا وہ سر بھی دیکھ
لے کام مجھ سے سخت اڑانوں کا تو مگر
پہلے مِری نگاہ، مِرے بال و پر بھی دیکھ
چہرے کے رنگ و نور کو میرا ہنر سمجھ
مجھ کو مِری نظر سے کبھی جھانک کر بھی دیکھ
اک بار اور بچ کے زمانے کی آنکھ سے
ہوں دیکھنے کی چیز تو بارِ دِگر بھی دیکھ
سیدہ شان معراج
سیدہ شفق آراء
No comments:
Post a Comment