پل رہے ہیں کتنے اندیشے دلوں کے درمیاں
رات کی پرچھائیاں جیسے دیوں کے درمیاں
پھر کسی نے ایک خوں آلود خنجر رکھ دیا
خوف کے ظلمت کدے میں دوستوں کے
کیا سنہری دور تھا ہم زرد پتوں کی طرح
اے خدا انسان کی تقسیم در تقسیم دیکھ
پارساؤں دیوتاؤں قاتلوں کے درمیاں
میرا چہرہ خود بھی آشوبِ سفر میں کھو گیا
میں یہ کس کو ڈھونڈتا ہوں منزلوں کے درمیاں
حسن عابدی
No comments:
Post a Comment