تضادِ جذبات میں یہ نازک مقام آیا، تو کیا کرو گے
میں رو رہا ہوں تم ہنس رہے ہو میں مسکرایا تو کیا کرو گے
مجھے تو اس درجہ وقتِ رُخصت سکوں کی تلقین کر رہے ہو
مگر کچھ اپنے لئے بھی سوچا، میں یاد آیا تو کیا کرو گے
کچھ اپنے دل پہ بھی زخم کھاؤ، مِرے لہو کی بہار کب تک
ابھی تو تنقید ہو رہی ہے، مِرے مذاقِ جنوں پہ، لیکن
تمہاری زُلفوں کی برہمی کا سوال آیا تو کیا کرو گے
ابھی تو دامن چھڑا رہے ہو، بگڑ کے قابلؔ سے جا رہے ہو
مگر کبھی دل کی دھڑکنوں میں شریک پایا تو کیا کرو گے
قابل اجمیری
No comments:
Post a Comment