دیکھیے ہو گئی بدنام مسیحائی بھی
ہم نہ کہتے تھے کہ ٹلتی ہے کہیں آئی بھی
حسن خوددار ہو تو باعثِ شہرت ہے ضرور
لیکن ان باتوں میں ہو جاتی ہے رسوائی بھی
سینکڑوں رنج و الم درد و مصیبت شبِ غم
تم بھی دیوانے کے کہنے کا برا مان گئے
ہوش کی بات کہیں کرتے ہیں سودائی بھی
بال و پر دیکھ تو لو اپنے اسیرانِ قفس
کیا کرو گے جو گلستاں میں بہار آئی بھی
پاؤں وحشت میں کہیں رکتے ہیں دیوانوں کے
توڑ ڈالیں گے یہ زنجیر جو پہنائی بھی
استاد قمر جلالوی
wah ustad jee wah
ReplyDelete