Saturday, 16 January 2016

خون میں لت پت ہو گئے سائے بھی اشجار کے

خون میں لت پت ہو گئے سائے بھی اشجار کے
کتنے گہرے وار تھے،خوشبو کی تلوار کے
اک لمبی چپ کے سوا، بستی میں کیا رہ گیا
کب سے ہم پر بند ہیں دروازے اظہار کے 
آؤ! اٹھو، کچھ کریں، صحرا کی جانب چلیں
بیٹھے بیٹھے تھک گئے سائے میں دلدار کے
راستے سُونے ہو گئے، دیوانے گھر کو گئے
ظالم لمبی رات کی تاریکی سے ہار کے
بالکل بنجر ہو گئی دھرتی دل کے دشت کی
رخصت کب کے ہو گئے موسم سارے پیار کے

شہریار خان

No comments:

Post a Comment