دنیا کے ستم یاد ۔۔۔ نہ اپنی ہی وفا یاد
اب مجھ کو نہیں کچھ بھی محبت کے سوا یاد
میں شکوہ بہ لب تھا مجھے یہ بھی نہ رہا یاد
شاید کہ میرے بھولنے والے نے کیا یاد
کیا جانیے کیا ہو گیا اربابِ جنوں کو
جب کوئی حسیں ہوتا ہے سرگرمِ نوازش
اس وقت وہ کچھ اور بھی آتے ہیں سوا یاد
میں ترکِ رَہ و رسمِ جنوں کر ہی چکا تھا
کیوں آ گئی ایسے میں تِری لغزشِ پا یاد
مدت ہوئی ۔۔۔ اک حادثۂ عشق کو، لیکن
اب تک ہے تِرے دل کے دھڑکنے کی صدا یاد
کیا لطف ۔۔۔ کہ میں اپنا پتہ آپ بتاؤں
کیجے کوئی بھولی ہوئی خاص اپنی ادا یاد
جگر مراد آبادی
No comments:
Post a Comment