اپنوں کا یہ عالم کیا کہئے ملتے ہیں تو بے گانوں کی طرح
اس دور میں دل بے قیمت ہیں ٹوٹے ہوئے پیمانوں کی طرح
پروانے تو جل بجھتے ہیں مگر دل ہیں کہ سلگتے رہتے ہیں
آساں تو نہیں جیتے رہنا ہم ایسے گراں جانوں کی طرح
یا شمع کی لو ہی مدھم ہے، یا سرد ہے دل کی آگ ابھی
سوچا تھا کہ اڑ کر پہنچیں گے اس بزم میں پروانوں کی طرح
تنکوں کے سفینے لے لے کر کیا کیا نہ مقابل آئی خرد
ہم اہل جنوں رقصاں ہی رہے بپھرے ہوئے طوفانوں کی طرح
یا کون و مکاں میں خوار ہوئے یا کون و مکاں کی خیر نہیں
جینا ہے تو انسانوں کی طرح مرنا ہے تو انسانوں کی طرح
مجیب خیر آبادی
No comments:
Post a Comment