Wednesday, 9 July 2025

پاؤں رکتے ہی نہیں ذہن ٹھہرتا ہی نہیں

 پاؤں رکتے ہی نہیں ذہن ٹھہرتا ہی نہیں

کوئی نشہ ہے تھکن کا کہ اترتا ہی نہیں

دن گزرتے ہیں گزرتے ہی چلے جاتے ہیں

ایک لمحہ جو کسی طرح گزرتا ہی نہیں

بھاری دروازۂ آہن کہ نہیں کھل پاتا

میرے سینے میں یہ سناٹا اترتا ہی نہیں

دست جاں سے میں اٹھا لوں اسے پی لوں لیکن

دل وہ زہراب پیالہ ہے کہ بھرتا ہی نہیں

کیا لیے پھرتا ہوں میں آب سراب آنکھوں میں

ڈوبتا ہی نہیں کوئی کہ ابھرتا ہی نہیں

یہ پگھلتی ہی نہیں شمع کہ جلتی ہی نہیں

یہ بکھرتا ہی نہیں دشت کہ مرتا ہی نہیں

کچھ نہ کہیے تو بھلا یوں ہی سمجھتے رہیے

پوچھ لیجے تو وہ عیبوں سے مکرتا ہی نہیں


عبدالحمید

No comments:

Post a Comment