عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
یہی دُعا ہے یہی نعت بس، زیادہ نہ کم
ہو میری عُمر تریسٹھ برس، زیادہ نہ کم
عطا ہوا تھا مجھے جتنا اِذن روضے سے
ہوا میں جالی سے اُتنا ہی مَس، زیادہ نہ کم
بس اُتنی جتنی م<را بادشہ اجازت دے
بس اُتنی دیر چلے گا نفس، زیادہ نہ کم
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
یہی دُعا ہے یہی نعت بس، زیادہ نہ کم
ہو میری عُمر تریسٹھ برس، زیادہ نہ کم
عطا ہوا تھا مجھے جتنا اِذن روضے سے
ہوا میں جالی سے اُتنا ہی مَس، زیادہ نہ کم
بس اُتنی جتنی م<را بادشہ اجازت دے
بس اُتنی دیر چلے گا نفس، زیادہ نہ کم
تھرٹی فرسٹ
گزشتہ رات
یعنی
آخری شب ماہِ آخر کی
ہوئی رخصت
لیے آنکھوں میں آنسو شرمساری کے
کہ اُس اک آخری شب میں
میرے اندر کا شور کم کر دے
آیتیں پڑھ کے مجھ پہ دم کر دے
لوگ مجھ کو خریدنے سے رہے
آ کسی روز دام کم کر دے
میرے ماتھے پہ اپنے ہونٹوں سے
اک نئی زندگی رقم کر دے
طویل سوچ ہے اور مختصر لہو میرا
گراں سفر میں ہے زاد سفر لہو میرا
وہ رونقیں بھی گئی اس کے خشک ہوتے ہی
سجاتا رہتا تھا دیوار ادھر لہو میرا
ہر ایک لمحہ مجھے زندگی نے قتل کیا
تمام عمر رہا میرے سر لہو میرا
تشکیک
یکایک اور بظاہر بے سبب
شانے پہ اس نے ہاتھ کیا رکھا
لہو کے پار پُر اسرار جنگل کانپ اٹھے
اور معاً مجھ کو گماں گزرا
زمیں محور پہ اپنے ناچتی آئی
یکایک تھم گئی ہے
وفا میں برابر جسے تول لیں گے
اسے سلطنت بیچ کر مول لیں گے
اجازت اگر سر پٹکنے کی ہو گی
مقفل در یار ہم کھول لیں گے
کسی دن جو پلٹا مقدر ہمارا
بکے جس کے ہاتھوں اسے مول لیں گے
تجھ کو چاہا ہے بہت کچھ تو صلہ دے مجھ کو
زندگی اور نہ جینے کی سزا دے مجھ کو
رات دن کیسے تڑپتا تھا، تجھ یاد بھی ہے؟
میں ہی قاتل ہوں تِرا دل کہ دعا دے مجھ کو
یوں جگاتا ہے تِری یاد کا جھونکا اکثر
خواب میں آ کے کوئی جیسے ہلا دے مجھ کو
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
کتنا ہوں خوش نصیب مدینہ ملا مجھے
آیا جو موج غم میں سفینہ ملا مجھے
لہروں کے مد و جزر میں مٹ جاتا میں کہیں
موجوں سے کھیلنے کا قرینہ ملا مجھے
مجھ کو طلب نہ تھی کسی ہیرے نہ لعل کی
میں بے نیاز تھا تو نگینہ ملا مجھے
سفینہ ڈگمگانے لگ گیا ہے
کوئی رستہ دکھانے لگ گیا ہے
مراسم ختم ہوتا ہی سمجھیے
وہ کچھ نزدیک آنے لگ گیا ہے
تیرے غم نے بڑی چارہ گری کی
ہمارا غم ٹھکانے لگ گیا ہے
ہوں میں تیرا تو بے رخی کیسی
اے ستم گر یہ دِل لگی کسی
جلوۂ یار نہ نظر آئے
آنکھ میں پھر يہ روشنی کیسی
تھے جو اپنے وہی مخالف ہیں
دنیا دیکھو بدل گئی کیسی
روز قسطوں میں محبت کیسی
لمحے لمحے کی اذیت کیسی
پیار کی راہ الگ ہوتی ہے
چل پڑے ہو تو ندامت کیسی
ہم تو پہلے ہی مرے جاتے ہیں
اور ڈھاؤ گے قیامت کیسی
جنگل ہم اور کالے بادل
آیا اک ہوا کا جھونکا
یادیں بہت سی لے آیا
رات کے سناٹے کی خوشبو
اجلی صبح کی چہکاریں
سبز ملائم پتوں والے بھیگے تنوں کا تازہ لمس
اونچے گھنے جنگل کے اندر
دیوار تکلف ہے تو مسمار کرو نا
گر اس سے محبت ہے تو اظہار کرو نا
ممکن ہے تمہارے لیے ہو جاؤں میں آساں
تم خود کو مرے واسطے دشوار کرو نا
گر یاد کرو گے تو چلا آؤں گا اک دن
تم دل کی گزر گاہ کو ہموار کرو نا
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
میں کہ قطرہ آپﷺ کے آگے میری اوقات کیا
آپﷺ دریا، آپﷺ کے آگے میری اوقات کیا
یہ زمیں، شمس و قمر سب آپﷺ کی خاطر بنے
اور میں ذرہ، آپﷺ کے آگے میری اوقات کیا
آپﷺ کے ادنیٰ غلاموں کا ہوں میں ادنیٰ غلام
آپﷺ آقا، آپﷺ کے آگے میری اوقات کیا
بجھ چکی آگ مگر اب بھی جلن باقی ہے
میری آنکھوں میں شب غم کی چبھن باقی ہے
کانچ کے ظرف ضروری نہیں پینے کے لیے
اب بھی مٹی کے پیالوں کا چلن باقی ہے
ہونے والا ہے شب غم کا سویرا لیکن
اب بھی آنکھوں میں اندھیروں کی گھٹن باقی ہے
قید الفت سے رہا ہوتے ہوئے
وہ بھی کب خوش تھا جدا ہوتے ہوئے
میں نے دیکھے ہیں بہت سنسان شہر
راستوں سے آشنا ہوتے ہوئے
خود کشی کا ذائقہ چکھا گیا
مفلسی سے آشنا ہوتے ہوئے
محبوبہ بھی ایسی ہو
دور کہیں
کوئل کی کو کو گونج رہی ہے
نیل گگن پہ کالے بادل ڈول رہے ہیں
اور کھیتوں میں پگلی پوَن
ہرے بھرے مکے کے مُکھ کو چوم رہی ہے
اک عاشق جو محبوبہ سے بچھڑ گیا ہے
خوابوں کا سیلاب نہیں دیکھا جاتا
نیند نگر غرقاب نہیں دیکھا جاتا
جانے والے میری آنکھیں بھی لے جا
ان کو یوں بیتاب نہیں دیکھا جاتا
اتنا کہہ کر ایک شناور ڈوب گیا
افسردہ گرداب نہیں دیکھا جاتا
گھیر لیتے ہیں غم دسمبر میں
آنکھ رہتی ہے نم دسمبر میں
یاد تم کو نہیں رہا شاید
ساتھ ہوتے تھے ہم دسمبر میں
سال کے جس قدر مہینے ہیں
کاش ہو جائیں ضم دسمبر میں
موت کا خیمہ
سرِ عام
بے قبلہ خیمے میں
بال کھول کر
تم ناچنا شروع کرتیں
تو آنکھ نہ ملاتیں
ممنوع تھا تمہارا
کون کہتا ہے کہ آسانی بہت ہوتی ہے؟
عشق میں ویسے پریشانی بہت ہوتی ہے
بِنتِ انگور! مِرے گھر میں مناجات کرو
جب بھی آتا ہوں میں وِیرانی بہت ہوتی ہے
اِس کا درجہ لب و رُخسار سے اُوپر ہے تبھی
چُومنے کے لیے پیشانی بہت ہوتی ہے
رہے گا کب تک یہ رقص بے جان پتھروں پر
کوئی گِرائے عمود حیرت کے دائروں پر
مِرے لیے عرش پر کوئی جال بُن رہا ہے
بہت سی آنکھیں لگی ہوئی ہیں مِرے پروں پر
کھلی ہوئی کھڑکیوں سے رستے لٹک رہے تھے
ہمارے پہرے کہ بس جمے رہ گئے دروں پر
بت کے پردے میں خدا تھا مجھے معلوم نہ تھا
لعل پتھر میں چُھپا تھا مجھے معلوم نہ تھا
ڈھونڈتا میں رہا تسبیح کے دانوں میں اسے
ذرہ ذرہ میں خدا تھا، مجھے معلوم نہ تھا
دل نے جا جا کے کیے لاکھوں طوافِ کعبہ
اور وہ دل میں چُھپا تھا مجھے معلوم نہ تھا
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
وہی سب دکھوں کا مداوا کریں گے
انہی کو غمِ جاں سنایا کریں گے
کبھی ان کے روضے پہ آنکھیں ملیں گے
کبھی دُور جا کے پکارا کریں گے
وہ آنسو جو برسوں سے پیتے رہے ہیں
درِ مصطفیٰﷺ پہ بہایا کریں گے
نہ چاہتے ہوئے بھی آشکار کرنا پڑا
زمیں کا راز سرِ رہگزار کرنا پڑا
پلٹ کے جاتے ہوئے مجھ کو دیکھنے والے
طویل عمر تِرا انتظار کرنا پڑا
سحر کے وقت چمکنا تھا اک ستارے نے
جبینِ صبح تجھے سوگوار کرنا پڑا
تمہاری یاد کے ہر شے سے نظارے نکلتے ہیں
جو مجھ سے فرض چھوٹے ان کے کفارے نکلتے ہیں
دعاؤں کا اثر ماں کے لبوں سے پھوٹ پڑتا ہے
میں جب بے چارہ ہوتا ہوں کئی چارے نکلتے ہیں
کبھی بے حرمتی مسجد کی اور اپمان مندر کا
امیر شہر کے گھر سے کئی دھارے نکلتے ہیں
سنبھلا کی زندگی ہی سنبھلنے کا نام ہے
دکھ درد سے مقابلہ انساں کا کام ہے
راتوں کو گھومنا وہ بڑی دور میرے سات
وہ چاندنی وہ کھیت وہ دل کی ہر ایک بات
وہ درد و حزن و سوز کے پیکر کی داستاں
احساسِ رنج و غم کی سسکتی کہانیاں
بنتے ہی شہر کا یہ دیکھیے ویراں ہونا
آنکھ کھلتے ہی مِرا دہر میں گریاں ہونا
دل کی میرے جو کوئی شومئ قسمت دیکھے
باور آ جائے گلستاں کا بیاباں ہونا
چشم و ابرو کے لیے اشک ہیں ساز و نغمہ
میرا گریہ مِری آنکھوں کا غزل خواں ہونا
قرار جاں نہیں ہیں ہم سکون دل نہیں ہیں ہم
کہ شمعِ انجمن ہیں، صاحبِ محفل نہیں ہیں ہم
جہاں میں روشنی ہے آج کل جھوٹے نگینوں کی
کمالِ نقص یہ ہے ناقصِ کامل نہیں ہیں ہم
یہ قہر آلود نظریں کیوں؟ سوالِ چشمِ اُلفت پر
تمہارے شہر میں مہمان ہیں سائل نہیں ہیں ہم
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
چاند کی مجھ سے کبھی ہوتی نہیں ہے دوستی
ہے شکایت مجھ پہ کیوں کرتی نہیں ہو شاعری
ہائے چندا یہ بتا کیوں اس قدر مغرور ہے
بے سبب خوشامدوں پر کس لیے مسرور ہے
سچ کہوں گی میں، برا لگ جائے تو ہے معذرت
دل تمہارا سن کے بھر جو آئے تو ہے معذرت
لوگ کہتے ہیں
انسان بهی موسموں کی طرح بدلتے رہتے ہیں
کہ جیسے
کبهی خزاں کا پیلا موسم
کبهی بہار کا رنگیلا موسم
کبهی بارشوں کا گیلا موسم
کہہ دو دل میں جو بات باقی ہے
یہ نہ سوچو کہ رات باقی ہے
عشق کی بات ہے ابھی کر لو
بھول جاؤ حیات باقی ہے
ساری دنیا ہے پھر بھی تنہا ہوں
اک تمہارا ہی ساتھ باقی ہے
خستہ دل ہیں نہ ہمیں اور ستانا لوگو
ذکر اس کا نہ زباں پر کبھی لانا لوگو
عقل تیار تو ہے ترکِ تعلق کو مگر
اتنا آسان نہیں دل 💞 کو منانا لوگو
جا بجا ڈھونڈتی پھرتی ہیں نگاہیں جس کو
جانے کس شہر میں ہے اس کا ٹھکانہ لوگو
جس کو اپنا جگری یار سمجھتے تھے
کیا نکلا وہ کیا سرکار سمجھتے تھے
پتا نہیں تھا ہوش اڑا دے گا اک دن
سب جس کو ذہنی بیمار سمجھتے تھے
پوچھ رہے ہیں ہم سے پیروں کے چھالے
کیا سچ کا رستہ ہموار سمجھتے تھے
تِرے آستاں سے پہلے اک عجیب موڑ آیا
کہ میں شدتِ طلب میں وہیں خود کو چھوڑ آیا
مجھے اک صدائے دلکش تِرے در پہ کھینچ لائی
جو جکڑ رہے تھے رشتے، وہ تمام توڑ آیا
تِرے سنگِ در کا دیکھے کوئی اہلِ دل کرشمہ
وہی سر بچا کے لایا، جو جبیں کو پھوڑ آیا
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
اے زائر کوئے نبی اتنا تو کر اے مہرباں
اہلِ مدینہ کو سنا حالِ نعیم خستہ جاں
مایوسیوں کی کثرتیں ناکامیوں پر حسرتیں
تنہائیوں کی وحشتیں اندوہ و غم کی داستاں
اعدا کے نرغے ہیں جدا اپنے ہوئے ہیں بیوفا
ہر سمت سے آئی بلا آفت کا ٹوٹا آسماں
سرد موسم ستائے جب
بے وجہ اُداسی چھا جائے جب
جب تھکن کے در وا ہو جائیں
ہم تیری آغوش میں دِھیرے سے سو جائیں
تمہارا رُوبرُو ہونا، تمہارا محوِ گُفتگو ہونا
یہی زندگی ہے
گردن میں طوق پاؤں میں زنجیر دیکھ کر
حیرت ہوئی ہے دوست کی تصویر دیکھ کر
کل رات ہم نے خوب ستاروں کی سیر کی
کوئی بتائے خواب کی تعبیر دیکھ کر
عشق و وفا خلوص سے انجان ہیں وہ لوگ
رشتہ نبھا رہے ہیں جو جاگیر دیکھ کر
سمجھے اگر نہ اب بھی کوئی بات دوستو
یونہی رہے گی ظلم کی یہ رات دوستو
تم جو ابھی تلک ہو سہاروں کی آس پر
بگڑیں گے اور بھی ابھی حالات دوستو
دل میں کسی کی یاد کچھ آئی ہے اس طرح
جیسے ہو رہگزار میں برسات دوستو
کروں بیان اگر اس کی بے وفائی کا
زباں سے نام نہ لے کوئی آشنائی کا
نہ عشوہ سازی نہ غمزے نہ ناز پھولوں میں
ہے سادہ حسن میں انداز دلربائی کا
بدن سے جان نکلتی ہے یہ خبر دے کر
کبھی ہے وصل کا موسم کبھی جدائی کا
تِرا جلوہ ہر سُو عیاں دیکھتے ہیں
جدھر دیکھتے ہیں جہاں دیکھتے ہیں
چمن کے ہر اک برگ و گل میں تجھی کو
عیاں دیکھتے ہیں، نہاں دیکھتے ہیں
ہیں ساتھ ان کی نظروں کے محفل کی نظریں
کدھر دیکھتے ہیں، کہاں دیکھتے ہیں
وفاؤں کے بدلے ستم دیکھتے ہیں
محبت کا اپنی بھرم دیکھتے ہیں
بڑے ان کے جاہ و حشم دیکھتے ہیں
یہ پتھر کے ہم جو صنم دیکھتے ہیں
رخِ یار پر یوں بکھرتی ہیں زلفیں
شب و روز دونوں بہم دیکھتے ہیں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
پسند آ گئی وہ ادائے محمدﷺ
کہ خالق ہوا خود فدائے محمدﷺ
نبیؐ جس سے راضی خدا اس سے راضی
رضائے خدا ہے رضائے محمدﷺ
مجھے دیکھ کر حشر میں سب پکارے
یہی ہے یہی مبتلائے محمدﷺ
تمہاری یاد کی تلخی ابھی بچی ہوئی ہے
سو اک شراب کی بوتل نئی رکھی ہوئی ہے
نہ آستین میں خنجر، نہ لب پہ شیرینی
یہ کیسے عقل کے دشمن سے دوستی ہوئی ہے
وہ پھول کس کے شبستاں میں کھل رہا ہو گا
جو میرے کمرے میں خوشبو بھری بھری ہوئی ہے
کہا جو حسن تمہارا رہا رہا نہ رہا
تو بولے پھر تو کہو کیا رہا رہا نہ رہا
حضور فاتحہ پڑھ جائیں آ کے اب اک دن
نشان میری لحد کا رہا رہا نہ رہا
جنابِ شیخ اڑا لو مزے جوانی میں
یہ دل یہ وقت ہمیشہ رہا رہا نہ رہا
اس چشم مے فروش کو جب جانتے ہیں لوگ
مے خوار کس لیے مجھے گردانتے ہیں لوگ
ہمدرد بھی قفس میں کوئی ہو تو کیا کہوں
میری یہاں زباں نہیں جانتے ہیں لوگ
گو مدتوں سے دیکھ رہے ہیں چمن کا رنگ
اب بھی ہوا کا رخ نہیں پہچانتے ہیں لوگ
مدعی عشق کے چہروں ہی پہ مرتے دیکھے
راستے دل کے بدن ہی سے گزرتے دیکھے
خود پرستی میں انا میں حد فاصل کھینچی
کتنے چہرے انہی آنکھوں نے اترتے دیکھے
زندگی سے کوئی سمجھوتہ بہت ممکن تھا
مڑ کے دیکھا تو سبھی فیصلے مرتے دیکھے
غزل کہیں تو وہی داستان نکلے گی
ہر ایک شعر میں آہ و فغاں نکلے گی
سفر کی مشکلیں رونے کا فائدہ کیا ہے
کہ جاتے جاتے ہی میری تھکان نکلے گی
جبیں کے نیچے دو کشتی میں باندھ لی ہے ندی
ضرور لے گی یہ اک دن اپھان نکلے گی
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
ہو اگر آستان نبیﷺ پر گزر آرزو میرے دل کی نکل جائے گی
زندگی میں نیا موڑ آ جائے گا، میری دنیا کی دنیا بدل جائے گی
اسمِ احمدﷺ میں تاثیر اکسیر ہے شرط یہ ہے کہ تُو صدقِ دل سے پڑھے
سارے بگڑے ہوئے کام بن جائیں گے، تیری تکلیف راحت میں ڈھل جائے گی
ہے مدینے پہ قربان عرشِ علا، ہیں مقرب فرشتے یہاں جبہ سا
اس زمینِ مبارک پہ بادِ صبا پاؤں کے بل نہیں سر کے بل جائے گی
درد بھی اس نے دیا عشق کے پیغام کے ساتھ
پی لیا زہر ہلاہل مئے گلفام کے ساتھ
لطف جب ہے کہ مسرت بھی ہو آلام کے ساتھ
کوئی جینا نہیں جینا ہو جو آرام کے ساتھ
داغ دل داغ جگر حسرت و فریاد و فغاں
مجھ کو تحفے یہ ملے عشق کے پیغام کے ساتھ
نہ کہہ حق میں بزرگوں کی کڑی بات
کہیں گے لوگ چھوٹا منہ بڑی بات
کہے اک بات پھولے سو شگوفے
شریروں نے بنائی پھلجھڑی بات
متانت ہے بہت کم بولتی میں
خموشی دوپہر ہو دو گھڑی بات
تو گیا لیکن تری یادیں یہاں پر رہ گئیں
بعد تیرے بس تری باتیں زباں پر رہ گئیں
پہلے تیری ذات کا پیکر کہیں پر گم ہوا
اور نہ جانے پھر تری یادیں کہاں پر رہ گئیں
آج پھر ایسا ہوا جب سوچ کر تجھ کو اے دوست
آسماں تکتی نگاہیں، آسماں پر رہ گئیں
کعبے میں جی لگا نہ مِرا لاکھ سیر کی
آنکھوں میں پھر رہی ہے وہی شکل دَیر کی
بگڑے تھے مجھ سے چل گئی تھی چال غیر کی
پھر کچھ سمجھ کے رہ گئے خالق نے خیر کی
ہم نشے کی ترنگ میں پہونچے کہاں کہاں
دو ایک جام پی کے زمانے کی سیر کی
حرم سرائے ناز ہے کہ درگۂ نیاز ہے
نگاہ نیم باز بھی نگاہ نیم باز ہے
ادھر ادھر جہاں تہاں مجاز ہی مجاز ہے
کہیں کہیں نشیب ہے کہیں کہیں فراز ہے
نہ تشنگی نہ اشتہا نہ حرص ہے نہ آر ہے
زبان غزنوی پہ اب ایاز ہی ایاز ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
ہم خطاکار و گنہ گار رسولِ عربیﷺ
ہے بڑی آپ کی سرکار رسولِ عربی
بکریاں لے کے چراگاہ میں جالے والے
کر لیا کرتے تھے بیوپار رسولِ عربی
خدمتِ خلق وہ کرتے تھے عبادت کے لیے
ہر گھڑی رہتے تھے تیار رسولِ عربی
چڑھا جو چاند ستاروں نے ساتھ چھوڑ دیا
کلی کھلی تو بہاروں نے ساتھ چھوڑ دیا
حضورِ دوست تکلم کی آرزو تھی، مگر
ملی نظر تو خیالوں نے ساتھ چھوڑ دیا
سفینہ لے کے چلے بادبان لہروں پر
بھنور میں جا کے سہاروں نے ساتھ چھوڑ دیا
ملنے ہم اپنے آپ سے جو اپنے گھر گئے
خود سے ملے نہیں تھے کہ پہلے ہی ڈر گئے
یہ سلسلے حیات کے بکھرے کچھ اس طرح
ہم آئے با خبر تھے، مگر بے خبر گئے
رکھا تھا زندگی میں ہر اک لمحے کا حساب
یہ لمحے تیری راہ میں خود ہی بکھر گئے
سوچ چھوٹی ہے بڑے یار نہیں ہو سکتے
ہم دِوانوں کا تو معیار نہیں ہو سکتے
وہ جو نا شاعرِ اعظم کے دِوانے ٹھہرے
وہ ہمارے تو خریدار نہیں ہو سکتے
ایسے ویسوں کے جو دُم چھلے بنے پھرتے ہیں
یار وہ لوگ تو بیدار نہیں ہو سکتے
تجھ کو پورا حق ہے جس کو چاہے تُو حیوان بول
ہاں مگر انسان کو تو کم سے کم انسان بول
تجھ سے ملنے کا مجھے کوئی بہانہ چاہیے
ہو کوئی شکوہ شکایت یا کوئی احسان بول؟
تُو نے چھوڑا شاعری کی سگریٹیں پی رات دن
اور کیا کرتا بھلا ٹُوٹا ہوا انسان بول؟
لوٹتے وقت کی بے کیف تھکن کو بھولیں
کس کے گھر جائیں کہ اس وعدہ شکن کو بھولیں
سہمی آنکھوں کے سوالوں کی تپن یاد رکھیں
تھرتھراتے ہوئے ہونٹوں کی کپن کو بھولیں
گرم سانسوں کی جلن سرد سی آہوں کی تپن
کیسے ممکن ہے کہ اس شعلہ بدن کو بھولیں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
قسمت کی بن آئی ہے، طیبہ کی گدائی ہے
طیبہ کی گدائی ہے، قسمت کی بن آئی ہے
یہ میری کمائی ہے، دل ان کا فدائی ہے
دل ان کا فدائی ہے، یہ میری کمائی ہے
یاد آپ کی آئی ہے، دکھ درد و الم غم میں
دکھ درد و الم غم میں، یاد آپ کی آئی ہے
وقت ہم یوں گزار لیتے ہیں
جیسے مفلس ادھار لیتے ہیں
ٹوٹ جائے نہ دل مقابل کا
جیت پا کر بھی ہار لیتے ہیں
اپنے حصے کے پھول دے کے انہیں
ان کے حصے کے خار لیتے ہیں
خیرات طلب خاک بہ سر خاک نشیں ہیں
ہم ایک زمانے سے تیرے غم کے امین ہیں
دنیا کے تقاضے جو نبھائیں تو کہاں تک
ہم لوگ ادھورے ہیں، مکمل تو نہیں ہیں
تُو نے کبھی پوچھا ہی نہیں حال ہمارا
مُدت سے تِرے شہر میں اے دوست مکیں ہیں
تڑپ، بے چینیاں، تنہائیاں لے کر کہاں جاؤں
جو گھیرے ہیں مجھے پرچھائیاں لے کر کہاں جاؤں
کبھی مجھ پر لُٹاتی تھی جو اپنے بانکپن میں وہ
ادائیں، شوخیاں، رعنائیاں لے کر کہاں جاؤں
جو تیرے عشق نے تحفے میں بخشی ہیں مجھے جاناں
وہ تیرے نام کی رُسوائیاں لے کر کہاں جاؤں
دل محو تماشائے لب بام نہیں ہے
پیغام بہ اندازۂ پیغام نہیں ہے
اے جان گراں سیر ترا رہبر و رہزن
ہے کون اگر وقت سبک گام نہیں ہے
جو تیرے دیار رخ و کاکل میں نہ گزرے
وہ صبح نہیں ہے وہ مری شام نہیں ہے
آخری خط
اے میری جاں گِلے شکوے تو ساری عمر رہتے ہیں
مِرا آداب جو تم تک پہنچ جائے، خوشی ہو گی
تمہیں معلوم ہے
آداب تم کو کس لیے لکھا
کہ دو رشتے جب آپس میں کبھی دامن چھڑاتے ہیں
تو پھر اس کے سبب ہی فاصلوں کے خار اُگتے ہیں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
جس نے مجھے گویائی عطا کی ذکر اسی کا کرتا ہوں
وہی پرستش کے لائق ہے اس کو ہی سجدہ کرتا ہوں
میں اس کی خوشنودی کا سامان مہیا کرتا ہوں
مدحتِ آقاﷺ کرتا ہوں اور ذکر مدینہ کرتا ہوں
کچھ اچھا کرنے کا دل میں جب بھی ارادہ کرتا ہوں
لب ہلنے لگتے ہیں میرے ذکر نبیﷺ کا کرتا ہوں
کسی کے ہجر میں یہ محوِ یاس لگتی ہے
گزرتے سال کی شامیں اداس لگتی ہے
مِرے طواف میں مصروف ہیں کئی دن سے
یہ ساعتیں تو مِری غم شناس لگتی ہے
کہ اب تو کی گھٹن کا کوئی علاج نہیں
کہ اب تو دھڑکنیں صحرا کی پیاس لگتی ہے
خدا سے
آسماں کی ناف میں رکھا ہوا
ہر دن مِرا
تیری اس ننگی زمیں سے منعکس ہوتا نہیں
میرے اندر ٹوٹتا ہے
روشنی آنکھوں سے باہر جھانکتی ہے
سر کٹی راتوں کو
یہ کیسے سلسلے گندم کے دانوں میں بنے ہیں
دکھ تو اور بہت سارے تھے
لیکن ماں کو
ایک ہی دکھ کھائے جاتا ہے
کہ وہ بچے جن جن کر
ان کی شریانوں میں پھول کھلا کر
گھر کی منڈیروں ہی جب بھی
زہر کو ہم دوا نہیں کہتے
ہم سزا کو جزا نہیں کہتے
بخش دیتے ہیں وہ خطا ان کی
خود وہ جس کو خطا نہیں کہتے
ہم سے ملتے ہیں جو محبت سے
ان کو ہم کج ادا نہیں کہتے
ساقی تھے کچھ رند یہاں کیا دیوانے مستانے سے
دیکھ چلا وہ جام پٹک کر کون ترے میخانے سے
مست ہوئے سرشار ہوئے کیا کہیے کتنے خوار ہوئے
اب یاد ہے اتنا چھلکے تھے ان آنکھوں میں پیمانے سے
آنسو ہیں سو بہتے ہیں اور سہنے والے سہتے ہیں
کہنے والے کہتے ہیں یہ لوگ ہیں کچھ دیوانے سے
نفرت کا یہ وکیل نکالیں کسی طرح
اب پیار کی اپیل نکالیں کسی طرح
آؤ غموں کے جسم کو ہی گدگدائیں اب
خوش رہنے کی سبیل نکالیں کسی طرح
کتنے اسی میں ڈوب گئے اور مر مٹے
آنکھوں سے اپنی جھیل نکالیں کسی طرح
سپنا
سنو
لو میں نے موند لی آنکھیں
تم نے آنا ہے تو آ جاؤ
تم جو شکوہ کرتے ہو
سپنے میں آنا ہوتا ہے
اور کھلی آنکھوں میں کیسے آؤں
آدمی کو آگہی ملتی رہے گی
کربلا سے روشنی ملتی رہے گی
کیا کہوں زرخیزئ خونِ شہیداں
ہر قدم پر زندگی ملتی رہے گی
ضربتِ سجدہ کی ہیبت سے ہمیشہ
خاک میں اب بتگری ملتی رہے گی
جانے کس سمت سے بہا پانی
گھر سے نکلو کہ آ چلا پانی
منتشر میری داستان ہوئی
راستوں میں بکھر گیا پانی
میں بھی نکلا حصار رفعت سے
آبشاروں سے گر پڑا پانی
تو کہاں ہے مجھے او خواب دکھانے والے
آ کہ دکھلاؤں تجھے میں ترے وعدوں کی کتاب
یاد ہیں تجھ کو وہ مہکے ہوئے رنگین خطوط
کس قدر پیار سے لاتی تھیں نصابوں کی کتاب
اب کوئی خواب میں دیکھوں کہاں فرصت ہے مجھے
میری بے خواب نگاہوں میں ہے یادوں کی کتاب
ثواب پر بھی گناہ پر بھی تمہارا قبضہ
سفید پر بھی سیاہ پر بھی تمہارا قبضہ
وزیر پر بھی اور شاہ پر بھی تمہارا قبضہ
اور ان کی پیدل سپاہ پر بھی تمہارا قبضہ
امام و مفتی و شاہ پر بھی تمہارا قبضہ
مساجد و خانقاہ پر بھی تمہارا قبضہ
لمحے جو شوخ شوخ سے منظر کی آس تھے
اجلا بدن پہن کے سبھی بے لباس تھے
موسم کہ زرد زرد سا پلکوں پہ تھا سجا
آنکھوں میں جو بسے سبھی منظر اداس تھے
گہرائیوں میں فکر کی کھوئے رہے تھے جو
لمحے وہ اضطراب کے جینے کی آس تھے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
درود پڑھتے ہوئے مہرباں کو دیکھتا ہوں
زمین زاد ہوں اور آسماں کو دیکھتا ہوں
مری حیات میں جب دھوپ بڑھنے لگتی ہے
ازل سے تا بہ ابد سائباں کو دیکھتا ہوں
ہر ایک بات پہ احساں جتاتے لوگوں میں
میں آخری کرم بے کراں کو دیکھتا ہوں
ہیں جتنے بھی روپ زندگی کے کسی پہ نہ اعتبار آیا
وہاں سے دامن بچا کے گزرے جہاں پہ کوئی فرار آیا
ہوئی جو تقسیم راحتوں کی عنایتوں کی یا چاہتوں کی
کسی کے حصے میں نارسائی کسی کے بس انتظار آیا
وہ جس سے دل کے ہیں دیپ جلتے بس ایک چہرہ ہے شہر بھر میں
اس ایک چہرے پہ جانے کیسے ہمارا دل بار بار آیا
غیر سے ہوتی ہو تکرار تیری بزم میں
تاؤ دیں گے مُونچھ کو سو بار تیری بزم میں
یوں ہی منہ آتے رہے یہ لوگ تو اے جان جاں
ہم کہیں پھڑکا نہ دیں دو چار تیری بزم میں
رنج ہے، رسوائیاں ہیں ، طعن ہے تعریض ہے
باندھ لائے ہیں یہ سب طُومار تیری بزم میں
مل جائے گر کہیں تو یہ پوچھوں گا شاہ سے
تکلیف کیوں ہے اس کو ہماری کلاہ سے
اے حسن زاد! اب تو مرے سامنے نہ آ
دامن چھڑا رہا ہوں میں یکسر گناہ سے
پھر یوں ہوا کہ لوگ مجھے گھورنے لگے
پتھر ہٹا رہا تھا میں بس یوں ہی راہ سے
الوداع اب تجھے اے عقل کہ شدت کے بعد
بن گیا دل یہ مرا ذہن محبت کے بعد
پھر تصوّر میں ترے حسن کی تصویر بنی
زُہد میں سورۂ یوسفؑ کی تلاوت کے بعد
آرزو ہے کہ اٹھا پردہ نَشیں رخ سے نَقاب
سُُرمہ بن جاؤں تری دیدِ وجاہت کے بعد
نئے نصاب نئے باب دیکھنے آئے
مرے مزاج کے وہ خواب دیکھنے آئے
میں جھیل بن گیا آخر تری محبت میں
کہ مجھ میں تُو کبھی مہتاب دیکھنے آئے
ہمیں سکون سے آتی تھی نیند گاؤں میں
اگرچہ شہر میں ہم خواب دیکھنے آئے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
رب کعبہ سے ملانے آ گئے میرے حضور
راستہ حق کا دکھانے آ گئے میرے حضور
ظلم دنیا سے مٹانے آ گئے میرے حضور
بیکسوں کا حق دلانے آ گئے میرے حضور
شادیانے بجنے لگیں ہر طرف ہی دوستو
کفر و ظلمت کو مٹانے آ گئے میرے حضور
جانے کیا سوچ کر ہم وفا کر گئے
زندگی میں یہی اک خطا کر گئے
یہ مِرے دور کے رہنمائے وطن
جس طرف بھی گئے کربلا کر گئے
لذتِ یاد سے ہم تو واقف نہ تھے
آپ دل میں ہمارے یہ کیا کر گئے
کب تک یہ جور دور زماں دیکھتے رہیں
ہم یوں چمن کو حرف خزاں دیکھتے رہیں
کیوں اپنے بازوؤں کو نہ جنبش میں لائیں ہم
کیوں ظلمتوں کے بند گراں دیکھتے رہیں
ہم لوگ حوصلوں کے خداوند ہو کے بھی
کیوں راستوں کے سنگ گراں دیکھتے رہیں
امید صبح خیال بہار کیا کیا کچھ
گنوا کے بیٹھے ہیں ہم جاں فگار کیا کیا کچھ
جنوں قماش تھی اپنی خرد کی دنیا بھی
سو بزم بزم سمیٹا غبار کیا کیا کچھ
وفا خلوص مروت سپاس دل داری
ہوئے ہیں ہم سے گناہ کبار کیا کیا کچھ
دامن تِرے خیال کا جو تھام کر چلا
ہر راستہ مِرا، تِرے در سے ہی آ ملا
رعنائیِ خیال کا در کب سے بند تھا
تیرے حسیں خیال کے ہاتھوں یہ در کھلا
ہر آرزو کے انت پر اک اور آرزو
صحرائے عمر کیا ہے؟ سرابوں کا سلسلہ
اک زہرِ ہلاہل تھا جسے میں نے پیا ہے
مظلوم تھے وہ لمحے جنہیں قتل کیا ہے
میں رہ نہ سکا راہِ سفر میں کبھی تنہا
جو مجھ کو مِلا میں نے اسے ساتھ لیا ہے
آنے سے تِرے آج مِلی قُرب کی لذّت
اک ساغرِ رنگیں تِری آنکھوں سے پیا ہے
میری چاہت کا تم حوصلہ دیکھنا
ایک دن پاؤں میں آبلہ دیکھنا
مجھ کو بستی میں کچھ دن ٹھہرنے تو دو
اہلِ دل کا یہاں قافلہ دیکھنا
جس کی آمد پہ بستی سجائی گئی
کل اسی کے مکاں کا جلا دیکھنا
نمی آنکھوں کی بادہ ہو گئی ہے
پرانی یاد تازہ ہو گئی ہے
ہے مجھ کو اعتراف جرم الفت
خطا یہ بے ارادہ ہو گئی ہے
چلے آؤ ہجوم شوق لے کر
رہ دل اب کشادہ ہو گئی ہے
شناسا جس کو سمجھے تھے وہی نا آشنا نکلا
وہ کیسا یار تھا جو یار بن کر بے وفا نکلا
بھٹکتا چھوڑ آئے تھے جسے ہم دور صحرا میں
ہزاروں قافلوں کے درمیاں وہ قافلہ نکلا
الٹ کر جب بھی دیکھی ہے کتاب زندگی ہم نے
تو ہر اک لفظ کے پیچھے کوئی اک حادثہ نکلا
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
جو پیغامِ حق کو سنائے محمدﷺ
سو باطل کی ہستی مٹائے محمدﷺ
معطر ہے محفل جو آئے محمدﷺ
ہے روشن فضا مسکرائے محمدﷺ
تنفر کی ظلمت مٹی ہے دلوں سے
چراغِ محبت جلائے محمدﷺ
دشمن کے لیے دعا
خدائے برتر
ہماری چیخیں ہمارے سینوں میں جم
گئی ہیں
تمام ساتھی تمام گھائل
ہمارے قاتل بنے ہوئے ہیں
انہیں دکھائیں
روح و بدن کی ناہمواری بڑھتی جاتی ہے
دنیا میں آ کر دشواری بڑھتی جاتی ہے
وقت سے صرف اتنا ہی ہوتا ہے کہ وقت کے ساتھ
نسل آدم کی مکاری بڑھتی جاتی ہے
جھگڑا کم نہیں ہوتا ہے کفر و اسلام کے بیچ
اللہ اور ابلیس کی یاری بڑھتی جاتی ہے
کانٹوں کی چبھن مانگنے والے نہیں جاتے
مدت سے مِرے پاؤں کے چھالے نہیں جاتے
اک سمت سے روکوں تو اُٹھیں دوسری جانب
طُوفان، سمندر سے نکالے نہیں جاتے
آنکھوں میں مِرے دل کی اُتر آتے ہیں اکثر
وہ خواب جو فطرت سے سنبھالے نہیں جاتے
مری آنکھوں میں جو منظر ہے وہ منظر بدل جاتا
ستاروں سے بھرا یہ آسماں یکسر بدل جاتا
جو شعلہ ہے مِری مُٹھی میں بن جاتا گِل تر وہ
ہے میرے یار کے ہاتھوں میں جو پتھر بدل جاتا
مِرے ذوقِ جبیں سائی کی وحشت دیکھ کر اب تک
نہ بدلا وہ ستمگر کاش سنگ در بدل جاتا
زندگی ہے حرص یہ سب عرصۂ پیکار حرص
حرص ہے دنیا کی ہر شے اور کاروبار حرص
جنگ و شورش پر جو آمادہ یہاں اقوام ہیں
ان میں جلوہ گر ہوس ہے اور ہے بیدار حرص
ان کو لے ڈوبے گا اک دن جذبۂ حرص و ہوس
خود غرض قوموں کو ہے سرمایۂ ادبار حرص
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
باغِ فردوس سے کم باغِ مدینہ تو نہیں
ہاں مگر منکر و نادان نے سمجھا تو نہیں
اُن کو پہچاننا آسان ہے دیکھا تو نہیں
میرے سرکار ہیں جیسے کوئی ایسا تو نہیں
قاسمِ نعمتِ کوثر کو ہے ہر دم یہ خیال
کوئی بھُوکا تو نہیں ہے کوئی پیاسا تو نہیں
جس کا جی چاہے وہ لیتا ہے نشانہ دل کا
ہم کہیں دور بنائیں گے ٹھکانہ دل کا
بیٹھے بیٹھے یونہی ہونٹوں پہ ہنسی آئی تو
آ گیا یاد کسی شوخ پہ آنا دل کا
کیا قیامت ہے کہ دو بول محبت کے عوض
لے گیا چھین کے وہ ہم سے خزانہ دل کا
باقی سب کچھ فانی ہے
ایک وہی لافانی ہے
سنتے رہتے ہیں ہم سب
دنیا ایک کہانی ہے
شرم و حیا سب قصے ہیں
سوکھا آنکھ کا پانی ہے
کبھی وہ خوش بھی رہا ہے کبھی خفا ہوا ہے
کہ سارا مرحلہ طے مجھ سے برملا ہوا ہے
نشستیں پر ہیں چراغ و ایاغ روشن ہیں
بس ایک میرے نہ ہونے سے آج کیا ہوا ہے
اٹھا کے رکھ دو کتاب فراق کو دل میں
کہ یہ فسانہ ازل سے مرا سنا ہوا ہے
دعا ہے اور دعا کے علاوہ کچھ بھی نہیں
ہمارے پاس خدا کے علاوہ کچھ بھی نہیں
میں اپنے چاہنے والوں کو کیسے بتلاؤں
کہ میرے دل میں خلا کے علاوہ کچھ بھی نہیں
وہ کھولنا تھے جنہیں رازِ زندگی، اُن سے
کُھلا تو بندِ قبا کے علاوہ کچھ بھی نہیں
نہ مسجد ہے کوئی نہ چرچ ہے نہ کوئی مندر ہے
اگر گھر ہے کہیں اس کا تو تیرے دل کے اندر ہے
زمانے کی نظر کو وہ بھلا آئے نظر کیسے
نہ اس کا رنگ ہے نہ روپ ہے نہ کوئی پیکر ہے
پرندوں میں چہکتا ہے گلوں میں وہ مہکتا ہے
ہے اس کی ہی اداکاری جو یہ قدرت کا منظر ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
مدنی چاند کے جلوؤں میں نہا لیتا ہوں
چاند کی طرح بدن اپنا بنا لیتا ہوں
محفلِ نور شبِ غم میں سجا لیتا ہوں
اُن کی یادوں کے چراغوں کو جلا لیتا ہوں
دلنشیں نعت کے لہجے کو بنا لیتا ہوں
دل کی آواز سے آواز ملا لیتا ہوں
کون کس کا حبیب ہوتا ہے
اپنا اپنا نصیب ہوتا ہے
چاندنی سے جھلس گیا دامن
غم کا رشتہ عجیب ہوتا ہے
آپ یوں ہی خفا ہیں قسمت سے
چاند کس کے قریب ہوتا ہے
دن کا سکون رات کی اوقات لے گئی
وہ گھر سے کیا گئی کہ خوشی ساتھ لے گئی
کچھ ابر کا مزاج ہی برہم تھا کھیت سے
رت اپنے ساتھ گاؤں کی برسات لے گئی
چڑیوں کو بھی درخت پہ رکنا نہیں پسند
پیپل کی دھوپ چھاؤں کی بارات لے گئی
آپ دینے کو کیا نہیں دیتے
بس وفا کا صلہ نہیں دیتے
راہ ان کی بہت کشادہ ہے
جو کبھی راستہ نہیں دیتے
میں بھی رسماً سلام کرتا ہوں
دل سے وہ بھی دعا نہیں دیتے
احساس غم عشق کا حاصل نہیں ہوتا
وہ درد کے جو روح میں شامل نہیں ہوتا
اے ذوق نظر بھول بھی جا ذوق نظر کو
افسانہ کبھی زیست کا حاصل نہیں ہوتا
اے دوست وفا ساز محبت کی نظر میں
بگڑی کو بنا لینا تو مشکل نہیں ہوتا
تضمین بر روٹیاں
کہتے ہیں وہ کہو تو سہی کیا ہیں روٹیاں
کہہ دو کہ زندگی کا سہارا ہیں روٹیاں
اعجازِ جاں نواز، مسیحا ہیں روٹیاں
کمیاب ہیں کہ جانِ تمنّا ہیں روٹیاں
مجھ کو فسانہ حجرتِ آدمؑ کا یاد ہے
گندم بِنائے عالمِ خیر و فساد ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
ذکر کی ابتداء محمدﷺ سے
ذکر کی انتہا محمدﷺ سے
ساری رحمت کے وہ ہی محور ہیں
ہے سبھی کو عطا محمدﷺ سے
کلمۂ لا الٰہ الا اللہ
یہ مکمل ہوا محمدﷺ سے
خنجر کو رگ جاں سے گزرنے نہیں دے گا
وہ شخص مجھے چین سے مرنے نہیں دے گا
پھر کوئی نئی آس وہ دے جائے گا دل کو
ٹوٹے ہوئے شیشے کو بکھرنے نہیں دے گا
دن ڈھلتے نکل آئے گا پھر یاد کا سورج
سایہ مِرے آنگن میں اترنے نہیں دے گا
چشمِ ساقی مے و سبو دیکھا
حسنِ لاریب چارسو دیکھا
جب تمنا نہیں رہی کوئی
پھر اسے اپنے رو بہ رو دیکھا
اس کا شیدا تو تھا ہی شہرمگر
آئینہ محوِ آرزو دیکھا
کب ہوا وصل اس ستمگر کا
کب مِرے سر سے آسماں سرکا
جس جگہ پر جلیں فرشتوں کے
کیا گزر ہو مِرے کبوتر کا
دیر کیوں کی ہے، شورِ محشر کیا
منتظر ہے کسی کی ٹھوکر کا
تمہاری یاد سے نکلی اداسی
مجھے تسلیم ہے ایسی اداسی
ملن وہ آخری بھولا نہ اپنا
نہ اس کے بعد کی پہلی اداسی
سمندر سے بھی گہرا دل ہمارا
ہمارے دل سے بھی گہری اداسی
مجھے تو سر چھپانے کے لیے گھر کی ضرورت ہے
امیرِ شہر کو لیکن مِرے سر کی ضرورت ہے
کسی کی آبرو پامال ہو جائے تو کہتے ہیں
اسے اب چار دیواری کی چادر کی ضرورت ہے
دیارِ دل میں آ بسنے کا اب تم فیصلہ کر لو
مکیں درکار ہے دل کو، تمہیں گھر کی ضرورت ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
راس ہے اس وطن کو فضا نعت کی
چل رہی ہے یہاں پر ہوا نعت کی
ہر کہیں ہیں “رفعنا” کی تابانیاں
ہر طرف گونجتی ہے صدا نعت کی
پرتوِ سبز گنبد ہے پرچم مِرا
لہلہاتی ہے اس پہ ضیاء نعت کی
گھاٹ کب لوٹی ہماری ناؤ بھی
ڈھل چکا جب ساحلوں کا چاؤ بھی
ندیو! تم بھی ذرا دم سادھ لو
بھر چکے کچے گھڑوں کے گھاؤ بھی
آرزو غرقاب ہوتی دیکھ کر
بہہ گئے آدھے ادھورے چاؤ بھی
مدتوں میں گھر ہمارے آج یار آ ہی گیا
ظلم کرتا تھا مگر ظالم کو پیار آ ہی گیا
ہجر کی راتیں کٹیں تارے گنے جاگا کئے
وصل کے لمحے ملے آخر قرار آ ہی گیا
وہم تھے میری طرف سے بد گمانی تھی انہیں
میری فطرت دیکھ کے اب اعتبار آ ہی گیا
خول سا اوڑھے ہوئے لگتے ہیں لوگ
بات کیا ہے اتنے چپ کیسے ہیں لوگ
بند کمروں سے ابھی نکلے ہیں لوگ
اور ہی انداز سے ملتے ہیں لوگ
جس کو دیکھو ہے وہی جھلسا ہوا
کس دہکتی آگ سے نکلے ہیں لوگ
کمبخت ہو برا دلِ خانہ خراب کا
مجھ پر عذاب کر دیا عالم شباب کا
دیکھا جو میں نے نامۂ اعمال حشر میں
قصہ لکھا تھا میرے اور ان کے شباب کا
ہیں یاد ان کی آج تک دل فریبیاں
کچھ دیر خواب دیکھا تھا ہم نے شباب کا
اس محبوبہ کی محبت میں تمہاری حالت اسی طرح ہو گئی ہے
جیسی اس سے پہلے ام حویرث اور اس کی پڑوسن
ام رباب کے عشق میں ہو چکی ہے
یہ اس وقت کی بات ہے جب تم مقام ماسل میں تھے
یعنی جس طرح پہلے ان دو عورتوں کی محبت میں مبتلا ہو کر
مصیبتیں اٹھا چکے ہو
بوڑھے برگد کی صدا
تمہیں یاد ہو شاید
بدلتی رتوں کے درمیاں
جب خزاں کے ماتھے پہ ابھرتی سلیٹی سلوٹیں
اور بھی گہری ہوئی تھیں
بہار کے ناز سے بڑھتے قدم
انجانے خطرے کی بو سونگھ کر
تنگ آ گئے ہیں کشمکش آشیاں سے ہم
اب جا رہے ہیں آپ کے اس گلستاں سے ہم
صیاد نے جو کاٹ دئیے بال و پر تمام
فریاد آج کرتے ہیں اس باغباں سے ہم
بجلی چمک رہی ہے نشیمن کی خیر ہو
مایوس ہو گئے ہیں کچھ اب آشیاں سے ہم
اثر جب کچھ نہیں ہوتا دوا میں
مداوا ڈھونڈتے ہیں ہم دعا میں
تمہاری یاد کی پرچھائیاں ہیں
مِرے کمرے کی دھندلی سی فضا میں
فنا سے زندگی مٹتی ہے لیکن
نئی اک زندگی بھی ہے فنا میں
وصل کا عہد استوار نہیں
ان کے وعدوں کا اعتبار نہیں
ہم تصور میں واں پہنچتے ہیں
قدسیوں کا جہاں گزار نہیں
کس صفائی کے ہیں جنوں کے ہاتھ
جیب و داماں میں ایک تار نہیں
خود ہی اپنا راز خود ہی راز داں بن جاؤں گا
ایک لمحے کا یقیں ہوں پھر گماں بن جاؤں گا
حرف کی صورت زباں پر ایک بار آنے تو دو
دیکھتے ہی دیکھتے میں داستاں بن جاؤں گا
ابتدا میں اک علامت تھا گزرتے وقت کی
انتہا تک اگلے وقتوں کا نشاں بن جاؤں گا
شہر طلب بھی جل گیا آہ جو بے شمار کی
سوزِ وفا نے زندگی عشق کی سوگوار کی
دردِ فراق بڑھ گیا، آنکھ سے اشک بہہ گئے
نشترِ غم کی ہر خلش ہم نے جگر کے پار کی
روشن ہوا چراغِ دل، نُور میں ڈھل گئی ہے رات
بات زبان پہ آئی تھی ہجر میں ان کے پیار کی
قدم قدم پہ یہاں دلفریب دھوکا ہے
اسی فریب مسلسل کا نام دنیا ہے
تمام دنیا سے انسان کھیلتا ہے مگر
کسی کے ہاتھ میں انسان خود کھلونا ہے
ہمارے ساتھ نہیں ہے ہمارا دل بھی مگر
تمہارے ساتھ تو دنیا ہے ساری دنیا ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
مختارِ دو عالم کا نگر دیکھ رہے ہیں
نورانی فضا شام و سحر دیکھ رہے ہیں
ہم آ کے مدینے میں الٰہی کے کرم سے
ان آنکھوں سے محبوب کا در دیکھ رہے ہیں
حسرت یہ لیے سوئے ہیں، خوابوں میں ہمارے
سرکار کا کب ہو گا گزر دیکھ رہے ہیں
ٹپکتا ہے مرے اندر لہو جن آسمانوں سے
کوئی تو ربط ہے ان کا زمیں کی داستانوں سے
دھواں اٹھنے لگا جب سنگ مرمر کی چٹانوں سے
ستاروں نے ہمیں آواز دی کچے مکانوں سے
سمندر کے پرندو ساحلوں کو لوٹ بھی جاؤ
بہت ٹکرا لیے ہو تم ہمارے بادبانوں سے
حقیقت کو عجب انداز سے جھٹلایا جاتا ہے
زمانے کو خدا کے نام پر بہکایا جاتا ہے
تعلق رہنما کا مفلس و نادار سے کیسا
انہیں ووٹوں کی خاطر وقت پر پھسلایا جاتا ہے
کہیں میری شرافت کو نہ کمزوری سمجھ بیٹھے
کبھی دشمن کو بھی اس واسطے دھمکایا جاتا ہے
جلا دوں رنج کے خرمن کو وہ شرارہ ہوں
سپہر جوش مسرت کا میں ستارہ ہوں
نہ جس کی تھاہ ملے بحر بے کنار ہوں میں
کنارہ جس سے کرے عقل وہ کنارہ ہوں
میں خود زمین و زمان ہوں میں آپ کون و مکاں
یہ کائنات نہیں میں ہی سب نظارہ ہوں
سر بزم احترام ان کا نہ کرتے ہم تو کیا کرتے
یقینِ وعدۂ فردا نہ کرتے ہم تو کیا کرتے
جہاںِ رنگ و بُو میں پھیلتی جاتی تھی بد ذوقی
شراب و شعر کا چرچا نہ کرتے ہم تو کیا کرتے
ہمِیں اک تختۂ مشقِ ستم تھے سارے عالم میں
تمہارے جور کا شکوہ نہ کرتے ہم تو کیا کرتے
ہم سے جو عہد تھا وہ عہد شکن بھول گیا
اپنے عشاق کو وہ غنچہ دہن بھول گیا
قیس کا جلوۂ لیلیٰ جو ہوا ہوش ربا
وہ سراسیمہ ہوا نجد کا بن بھول گیا
کیا کرشمہ یہ تِری چشم سخن گو نے کیا
کس کی جانب تھا مِرا روئے سخن بھول گیا
اک شبِ تاریک ہم منزل پہ یوں لائے گئے
قید سے نکلے تو اک مقتل میں پہنچائے گئے
ہر قدم پر خون بکھرا تھا ہماری راہ پر
غالباً کچھ لوگ ادھر پہلے بھی لے جائے گئے
ایک تابندہ کرن کی آرزو کے جرم میں
سینکڑوں سورج مِرے سینے میں دہکائے گئے
جہادِ زندگی میں پُر خطر جو کُود جاتے ہیں
انہیں کو حادثاتِ زندگانی راس آتے ہیں💢
درندے جن کی خونخواری کے آگے سر جھکاتے ہیں
اسی دنیا میں کچھ انسان ایسے پائے جاتے ہیں
دلِ گُل چیں پہ کالے ناگ اکثر لوٹ جاتے ہیں
جو دم بھر کے لیے غنچے چمن میں مسکراتے ہیں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
تجھ کو ہی فقط حمد سزاوار ہے یا رب
معبودِ خلائق ہے تُو غفار ہے یا رب
یکتا ہے تُو اور ذات احد پھر یہ تماشہ
بس تُو ہی جہاں دیکھیے دو چار ہے یا رب
عالم ہے وہ حیرت کدہ آئینے کی مانند
حیران ہر اک غافل و ہشیار ہے یا رب
غم بھی اگر ہو تو غم نہ کریں گے
راکھ ہو جائیں گے پھر بھی جلیں گے
یاد سے اُس کی ہے رونقِ دل یہ
جینا اگر ہے تو دم یہ بھریں گے
زندگی دے ہمیں اِذنِ تبسّم
سانس کی مالا پہ موتی جَڑیں گے
انکار نہیں یارو، قرآن مشترک ہے
الفت میں محبت کی، اذان مشترک ہے
رنگ و نسب کی بات، بھلا کیوں کرے کوئی
سوڈان و ایران کا ایمان مشترک ہے
غفلت سے نکالو تو بیدار ہو زمانہ
مظلوم، بھوکے بچے، ارمان مشترک ہے
ازل سے مرد ظالم ہے
مِری بچی مِری معصوم سی بچی
تجھے سب کچھ بتاؤں گا
میں تیرا باپ ہوں لیکن
تجھے مردوں کا میں دُکھڑا سناؤں گا
کہ جیسے بیٹیاں سسرال سے آ کر سناتی ہیں
کہ جیسے روٹیوں کے قصے رو رو کر بتاتی ہیں
کو بہ کو ہوتا نہیں یا در بدر ہوتا نہیں
خون ناحق کس طرف شام و سحر ہوتا نہیں
ہر شجر اے دیدۂ تر بار ور ہوتا نہیں
ہر صدف کی گود میں جیسے گہر ہوتا نہیں
سنتے آئے ہیں کہ شر کا بدلہ شر ہوتا نہیں
آج کل کے دور میں ایسا مگر ہوتا نہیں
تِری محفل سے جب اٹھ کر تِرا دیوانہ آتا ہے
کبھی تعظیم کو کعبہ کبھی بت خانہ آتا ہے
کیا کرتے ہیں فرزانے بھی اٹھ کر احترام اس کا
تمہاری بزم میں جب بھی کوئی دیوانہ آتا ہے
ہوس والے تِری محفل میں کب تک بیٹھ سکتے ہیں
وہ اٹھ جاتے ہیں سوئے شمع جب پروانہ آتا ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
جسے حسینؑ کا بابا سمجھ نہیں آتا
وہ جان لے اسے کعبہ سمجھ نہیں آتا
ہیں جس کے مولا محمدؐ ہیں اس کے مولا علیؑ
تجھے نبیﷺ کا یہ جملہ سمجھ نہیں آتا
عجب ہے حافظِ قرآں ہے یاد ساری کتاب
مگر کتاب کا نقطہ سمجھ نہیں آتا
اداسی کے جزیرے پر غموں کے سائے گہرے ہیں
نگاہوں کے سمندر میں لہو رنگ اشک ٹھہرے ہیں
کہیں تنہائیوں نے وحشتوں سے دوستی کر لی
کہیں دل پر گزشتہ موسموں کے اب بھی پہرے ہیں
کہیں برکھا کی رت نے دل کی دنیا خوں میں نہلا دی
کہیں ویران راہوں پر قدم صدیوں سے ٹھہرے ہیں
زندگی تجھ سے پیار کیا کرتے
خواب کا اعتبار کیا کرتے
تجھ کو فرصت نہیں تھی ملنے کی
ہم تِرا انتظار کیا کرتے
جو بھی اپنے تھے ساتھ چھوڑ گئے
غیر کا اعتبار کیا کرتے
وحشی کی نظر سے روپوش رکھا ہے
صحیح وقت تک خود کو خاموش رکھا ہے
بہت سے خریدار ہیں صنم تیرے دل کے
کیا اپنا ہی نام دل فروش رکھا ہے؟
ہجر کے زخم سے ہوا اس قدر زخمی
کرم ہے رب کا کہ اب بھی ہوش رکھا ہے
متاعِ عمرِ گزشتہ سمیٹ کر لے جا
جو ہو سکے تو مِرا درد اپنے گھر لے جا
تُو جا رہا ہے تو میری سسکتی آنکھوں سے
سلگتی شام پگھلتی ہوئی سحر لے جا
اچٹتی آنکھوں سے تہذیب کا سفر کیسا
تُو اپنے آپ کو تاریخ کے ادھر لے جا
خنجر تِرے ہاتھوں میں سنبھل جائے تو اچھا
قاتل مِرا ارمان نکل جائے تو اچھا
مر جائیں گے پر دل نہ لگائیں گے کسی سے
جی اور کسی ڈھب سے بہل جائے تو اچھا
ہر روز وہ ڈھونڈے ہیں کوئی تازہ خریدار
صورت مِری ہر روز بدل جائے تو اچھا
اپنے رنج و غم بانٹے ہم سے با خبر نکلے
ساتھ چلنے والوں میں کوئی ہم سفر نکلے
بے سعادتی ٹھہرے خواہ اب ہنر نکلے
سب نے جس سے روکا تھا ہم وہ کام کر نکلے
اک عجیب سناٹا محو شعر خوانی تھا
ہم جہاں جہاں پہونچے ہم جدھر جدھر نکلے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
یہ خیالوں میں شرف پاتے ہیں
سیدِ عرب و عجمﷺ آتے ہیں
جاگ جائے گی اپنی قسمت بھی
کون جاتا ہے؟ وہﷺ بلاتے ہیں
سوچ کر ہجر ان کے کوچے کا
اشک آنکھوں میں جگمگاتے ہیں
دل سے اتر گئے ہیں وہ نہ ان کا نام لے
کچھ پل تو جی ہمارا سکوں میں قیام لے
یہ دھندلائے چہروں پہ ٹھہرا ہوا سا کرب
کوئی بڑھے اور ان کا ذرا ہاتھ تھام لے
تجھ کو ملی ہے گر کوئی نعمت تو نہ اکڑ
بہتر ہے اس سے دنیا میں اچھا سا کام لے
آنسوؤں میں کبھی ڈھلی ہے رات
درد بن کے کبھی اٹھی ہے رات
کوئی سورج کہیں سے آ جائے
کتنی ویران ہو گئی ہے رات
صبح سے ہمکلام ہونے کو
زینہ زینہ اتر رہی ہے رات
زخم جب تک زباں نہیں ہوتے
وہ میرے مہرباں نہیں ہوتے
دوستی ہے یا دشمنی تم سے
ہم کبھی درمیاں نہیں ہوتے
مل کے بچھڑا تو اس میں حیرت کیا
حادثے ہیں، کہاں نہیں ہوتے؟
تمام خواب ادھورے اٹھا کے رکھے ہیں
کبھی تو ہوں گے یہ پورے اٹھا کے رکھے ہیں
تمہارے نام کا پیکر بنا کے رکھا ہے
تمہارے نام کے چہرے اٹھا کے رکھے ہیں
یہ کیا کہ چاند تو بادل میں جا کے بیٹھا ہے
سو ہم نے جگنو سنہرے اٹھا کے رکھے ہیں
زعفرانی کلام
ہے مِری بیوی ذرا بیمار باقی ٹھیک ہے
اور بچہ ہے ذرا لاچار باقی ٹھیک ہے
خُسر ہے میرا بڑا مکار باقی ٹھیک ہے
اور تھوڑی ساس ہے ہُشیار باقی ٹھیک ہے
چھے مِرے سالے ہیں اور وہ بھی ذرا سے بد قماش
لوگ کہتے ہیں انہیں عیّار باقی ٹھیک ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
حضورﷺ آپ کا نقش قدم جہاں ہو گا
وہ ذرہ خاک کا ہو کر بھی آسماں ہو گا
ہر اک جہاں کے لیے ہیں مِرے نبیؐ رحمت
ہر اک جہاں مِرے آقاﷺ کا مدح خواں ہو گا
سراپا نور میں ڈھالا گیا ہے جب ان کو
سراپا نور کا سایہ بھلا کہاں ہو گا
ملال
میں نے کتنی آشاؤں سے
پچھلے پہر کو چھپ چھپ اٹھ کر
پھول چنے تھے اپنے گھر کے
پھر کس چاؤ سے اپنی چنری
میں نے رنگی تھی ان پھولوں میں
لوگ کھڑے تھے نیناں کھولے
انتباہ (اقتباس)
حضور بندۂ مزدور پر کرم کیجے
کرم نہیں نہ سہی پر ستم تو کم کیجے
بجا کہ خدمت آقا میں فرق مت آئے
یہ زندگی کا لہو قطرہ قطرہ بہہ جائے
بجا کہ اپنے مقدر پہ ناز ہو مجھ کو
غرور و جبر سے ربطِ نیاز ہو مجھ کو
ایک گدھے کی فریاد
خدایا تو ہے مالک دو جہاں کا
زمین کا اور ساتوں آسماں کا
بہت پیاری سی یہ دنیا بنائی
ہزاروں رنگ کی صورت سجائی
شتر ہیں، اسپ ہیں، بکرے کہیں ہیں
زرافے ہیں کہیں، زیبرے کہیں ہیں
جو لوگ اجالے کو اجالا نہیں کہتے
ہم ان کو برا کہتے ہیں اچھا نہیں کہتے
جو جوڑ نہ دے ٹوٹے ہوئے تار دلوں کے
ہم اس کو محبت کا ترانا نہیں کہتے
جینا اسے کہتے ہیں جو ہو اوروں کی خاطر
اپنے لیے جینے کو تو جینا نہیں کہتے
نہیں کفر و ایماں کی راہوں میں فرق
ہے انساں کی اپنی نگاہوں میں فرق
خرابِ محبت نہیں جانتے
خرابات میں خانقاہوں میں فرق
نگاہِ ستم گر نہیں دیکھتی
گنہگار میں بے گناہوں میں فرق
زعفرانی کلام مقصدِ حیات
زندگی کیا چیز ہے کس دیس کی سوغات ہے
آؤ ہم بتلائیں کیوں جیتے ہیں ، کیا بات ہے
زندگی اپنی نمائش گاہِ پاکستان ہے
چار دن بجلی کا لیمپ اور پھر اندھیری رات ہے
آئے ہیں دنیا میں ہم کچھ کام کرنے کے لیے
کچھ خدا سے اور کچھ بیوی سے ڈرنے کے لیے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
تجھ سے بڑھ کر نہیں کوئی ہے اے خدا
تُو ہے مولائے کُل، ربِ ارض و سما
تُو ہی اول بھی ہے اور آخر بھی
تُو ہی آغاز ہے اور ہے انتہا
ذرہ ذرہ میں تیری ہی پرچھائیاں
چاند تاروں میں ہے تُو ہی جلوہ نما
دور پھیلا ہوا سمندر ہو
جس کے ساحل پہ تُو اکیلا ہو
اور ساحل سے کچھ ذرا ہٹ کے
ایک ننھا سا اجنبی پُل ہو
اور پُل پر کوئی سراپا ہو
جس کے بالوں میں نرم کلیاں ہوں
دھندلی سحر
گا رہا ہوں حسرتوں کا ایک گیت
اپنے دل کی دھڑکنوں کے ساز پر
عہدِ ماضی کے فسانوں کا خیال
عشرتِ رفتہ کے خوبیدہ گناہ
اور غمِ امروز کی یہ کشمکش
بن رہی ہے نغمۂ رنج و ملال
عشق
شام کے دھندلے سائے میں
املی کے اک پیڑ کے نیچے
میری پیشانی پہ لکھا تھا تم
اپنے سرخ لبوں کا نام
سارے بدن میں
ستار کے تاروں نے چھیڑا اک نغمہ
دیوار و در کے بیچ میں صحرا ہے یار ہے
اے سانس! بتا کس کا تجھے انتظار ہے
بھولے ہوئے سے ظلم و ستم کا ہے ماجرا
دھرتی پہ آج بکھرا ہوا انتشار ہے
اے تاجروں کے سانس کی تہذیب سن مجھے
تُو جانتی ہے تیرا کہاں اقتدار ہے
اک بت ہے جسے میری نظر ڈھونڈ رہی ہے
مشکل ہے ملاقات مگر ڈھونڈ رہی ہے
لاکھوں میں کسی ایک کے کاندھوں پہ ملے گا
وہ سر کہ جسے عظمت سر ڈھونڈ رہی ہے
منزل نے میرے پاؤں کو چوما ہے کئی بار
میں وہ ہوں جسے گردِ سفر ڈھونڈ رہی ہے
اک سحرِ سامری کا اثر دیر تک رہا
دھرتی پہ دائروں کا سفر دیر تک رہا
کچھ لوگ زندگی کی سکونت میں قید تھے
کچھ اور جن کو اذنِ سفر دیر تک رہا
دیوار و در کے بیچ کسی روشنی کی آس
زندانیوں کی آنکھ میں گھر دیر تک رہا
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
رونقِ زندگی آپﷺ ہیں آپﷺ ہیں
میری ساری خوشی آپؐ ہیں آپؐ ہیں
میرے دامن میں زہرہؑ کی خیرات ہے
کیوں ہو مجھ کو کمی آپؐ ہیں آپؐ ہیں
شاہِ خیبر شکن، شاملِِ پنجتن
یا علیؑ یا علیؑ آپؑ ہیں آپؑ ہیں
شدت شوق سے افسانے تو ہو جاتے ہیں
پھر نہ جانے وہی عاشق کہاں کھو جاتے ہیں
مجھ سے ارشاد یہ ہوتا ہے کہ سمجھوں ان کو
اور پھر بھیڑ میں دنیا کی وہ کھو جاتے ہیں
درد جب ضبط کی ہر حد سے گزر جاتا ہے
خواب تنہائی کے آغوش میں سو جاتے ہیں
کتنے بے حس ہیں بے حیا ہیں لوگ
سر بسر جور ہیں جفا ہیں لوگ
میں نے حق بات جب سے کہہ دی ہے
مجھ سے بے انتہا خفا ہیں لوگ
نام سے بھی وفا کے چڑتے ہیں
کس قدر دشمنِ وفا ہیں لوگ
جب دل ٹوٹا دیوانے کا
آغاز ہوا افسانے کا
تب اور شمع کی لو بھڑکی
جب جسم جلا پروانے کا
جب اپنا ہی اپنا ہی اپنا نہ رہا
تب شکوہ کیا بیگانے کا
یہ رنگ و روپ اب نہ رہے گا مکان کا
ہیرو بدل چکا ہے مِری داستان کا
چمگادڑوں کی قوتِ احساس چھین کر
آنکھوں نے کام لے لیا ہے بے زبان کا
پگلائے ہوئے ارض و سما گھوم رہے ہیں
بستی میں وقت آ گیا ہے امتحان کا
دل کے تاروں کو ہلا دیتی ہے آواز تِری
اک نیا درد جگا دیتی ہے آواز تری
ایک تالاب ہوں ایسا کہ جہاں یادیں ہیں
اس میں کنکر سا گرا دیتی ہے آواز تری
تُو ہے دریا تو کہیں دور چلا جا مجھ سے
تشنگی اور بڑھا دیتی ہے آواز تری
موسمِ گُل نہ بہاروں کا سخن یاد آئے
مجھ کو اے ماہ تِرے رخ کی پھبن یاد آئے
سیرِ گُلشن کے لیے وہ نہ کہیں نکلے ہوں
کس لیے آج مجھے سرو و سمن یاد آئے
جب شفق دیکھوں تو یاد آتے ہیں عارض اس کے
چاند کو دیکھتے ہی اس کا بدن یاد آئے
پوشیدہ سب کی آنکھ سے دل کی کتاب رکھ
ممکن ہو گر تو زخم کے بدلے گلاب رکھ
احسان کر کے بھول جا احسان مت جتا
کس کس کو کیا دیا ہے کبھی مت حساب رکھ
صحن چمن کے غنچوں میں تقسیم کر خوشی
شبنم کی طرح قلب کی آنکھیں پر آب رکھ
حیاتِ مختصر اور کام کیا کیا
اور اس پر ذہن میں اوہام کیا کیا
بُرا ہو اے خلوصِ نیّتِ دل
تِری خاطر ہوئے بدنام کیا کیا
ہٹے مسلک سے ہم ہرگز نہ اپنے
اگرچہ لگ گئے الزام کیا کیا
نظر ملا کے بھول گئے ہو
اپنا بنا کے بھول گئے ہو
میری بے بسی بھی تو دیکھو
گھر جلا کے بھول گئے ہو
کچھ اپنے کچھ میرے دِل کی
سن سنا کے بھول گئے ہو
رائیگاں عشق کا انجام کہاں ہوتا ہے
اب مِرا غم تِرے چہرے سے عیاں ہوتا ہے
آج منہ موڑ کے جانے لگیں یادیں اس کی
آج تاراج مِرا کوچۂ جاں ہوتا ہے
گردشِ وقت غلط نکلا تِرا اندازہ
ٹھوکریں کھا کے مِرا عزم جواں ہوتا ہے
جب تِری بزم سے ہم پیاس بجھا کر جاتے
اپنی بگڑی ہوئی تقدیر بنا کر جاتے
تشنہ لب اٹھ گئے محفل سے تمہاری ورنہ
دل میں بھڑکے ہوئے شعلے کو بجھا کر جاتے
ہوش میں رہ کے جو کہنا تھا مشکل ہم سے
نشے کی جھونک میں وہ بات بتا کر جاتے
بھول جا مت رہ کسی کی یاد میں کھویا ہوا
اس اندھیرے غار میں کچھ بھی نہیں رکھا ہوا
روشنی مل جائے تو مطلب عبارت کا سمجھ
ہے کتاب خاک میں کالک سے کچھ لکھا ہوا
چھو کے جب دیکھا مجھے بے حد پشیمانی ہوئی
وہم کا پیکر تھا میرے سامنے بیٹھا ہوا
اپنے وطن میں صبر شکن دن گزار کے
معنی بدل دئیے میں غریب الدیار کے
اک سجدہ عاجزی کا بہت ہے مِرے لیے
واقف ہوں میں مزاج سے پروردگار کے
میرے طلب کی چیز تِرے پاس بھی نہیں
شرمندہ کیوں کروں تجھے دامن پسار کے