Thursday, 6 November 2025

اداسی کے جزیرے پر غموں کے سائے گہرے ہیں

 اداسی کے جزیرے پر غموں کے سائے گہرے ہیں 

نگاہوں کے سمندر میں لہو رنگ اشک ٹھہرے ہیں 

کہیں تنہائیوں نے وحشتوں سے دوستی کر لی 

کہیں دل پر گزشتہ موسموں کے اب بھی پہرے ہیں 

کہیں برکھا کی رت نے دل کی دنیا خوں میں نہلا دی 

کہیں ویران راہوں پر قدم صدیوں سے ٹھہرے ہیں 

سجایا ہے کہیں آنکھوں نے خود کو ماہ و انجم سے 

اسی امید پر کہ آنے والے دن سنہرے ہیں 

بھروسا کر تو لوں لیکن بتاؤ کس پہ کرنا ہے 

کہ ہر چہرے کے پیچھے ہی نہ جانے کتنے چہرے ہیں 


اقصیٰ فیض

No comments:

Post a Comment