Monday, 14 September 2015

اگرچہ خوف کے عالم میں خواب ختم ہوا

اگرچہ خوف کے عالم میں خواب ختم ہوا
لگا کہ روح پہ طاری عذاب ختم ہوا
یہ ملنا اور بچھڑنا ہے پانیوں کی طرح
کہ ایک لہر اٹھی، نقشِ آب ختم ہوا
کسی کو پڑھ لیا ایک ہی نشست میں ہم نے
کوئی ضخیم تھا، اور باب باب ختم ہوا
اگرچہ مرگِ وفا ایک سانحہ تھا، مگر
میں خوش ہوا کہ چلو یہ سراب ختم ہوا
مہک کے ساتھ ہی رنگت بھی اڑ گئی خالدؔ
بچھڑ کے شاخ سے خود بھی گلاب ختم ہوا

خالد شریف

No comments:

Post a Comment