اکیلے رہنے کی خود ہی سزا قبول کی ہے
یہ ہم نے عشق کیا ہے یا کوئی بھول کی ہے
خیال آیا ہے، اب راستہ بدل لیں گے
ابھی تلک تو بہت زندگی فضول کی ہے
خدا کرے کہ یہ پودا زمیں کا ہو جائے
کہ آرزو مِرے آنگن کو ایک پھول کی ہے
نہ جانے کون سا لمحہ مِرے قرار کا ہے
نہ جانے کون سی ساعت تِرے حصول کی ہے
نہ جانے کون سا چہرہ مِری کتاب کا ہے
نہ جانے کون سی صورت تِرے نزول کی ہے
جنہیں خیال ہو آنکھوں کا لوٹ جائیں وہ
اب اس کے بعد حکومت سفر میں دھول کی ہے
یہ شہرتیں ہمیں یوں ہی نہیں ملی ہیں
غزل نے ہم سے بھی بہت وصول کی ہے
شکیل اعظمی
No comments:
Post a Comment