Friday, 2 October 2020

اکیلے رہنے کی خود ہی سزا قبول کی ہے

 اکیلے رہنے کی خود ہی سزا قبول کی ہے

یہ ہم نے عشق کیا ہے یا کوئی بھول کی ہے

خیال آیا ہے، اب راستہ بدل لیں گے

ابھی تلک تو بہت زندگی فضول کی ہے

خدا کرے کہ یہ پودا زمیں کا ہو جائے

کہ آرزو مِرے آنگن کو ایک پھول کی ہے

نہ جانے کون سا لمحہ مِرے قرار کا ہے

نہ جانے کون سی ساعت تِرے حصول کی ہے

نہ جانے کون سا چہرہ مِری کتاب کا ہے

نہ جانے کون سی صورت تِرے نزول کی ہے

جنہیں خیال ہو آنکھوں کا لوٹ جائیں وہ

اب اس کے بعد حکومت سفر میں دھول کی ہے

یہ شہرتیں ہمیں یوں ہی نہیں ملی ہیں

غزل نے ہم سے بھی بہت وصول کی ہے


شکیل اعظمی

No comments:

Post a Comment