Wednesday, 2 December 2020

بوسہ لیا جو چشم کا بیمار ہو گئے

 بوسہ لیا جو چشم کا، بیمار ہو گئے

زلفیں چھوئیں، بلا میں گرفتار ہو گئے

سکتہ ہے بیٹھے سامنے تکتے ہیں ان کی شکل

کیا ہم بھی عکسِ آئینۂ یار ہو گئے

بیٹھے تمہارے در پہ تو جنبش تلک نہ کی

ایسے جمے کہ سایۂ دیوار ہو گئے

ہم کو تو ان کے خنجرِ ابرو کے عشق میں

دن زندگی کے کاٹنے دشوار ہو گئے


حیرت الہ آبادی

No comments:

Post a Comment