Thursday, 21 April 2022

لبوں پر پیاس ہو تو آس کے بادل بھرے رکھیو

 لبوں پر پیاس ہو تو آس کے بادل بھرے رکھیو

سرابوں کے سفر میں اس طرح گلشن ہرے رکھیو

یہ بازار جہاں ہے بے غرض کوئی نہیں ملتا

پرکھ کر جب تلک دیکھو نہیں سب کو پرے رکھیو

وفا کے بول پر بے مول بک جاتی ہے یہ دنیا

اگر ہو بے سر و ساماں تو یہ سکے کھرے رکھیو

کسی کے سامنے دامن پسارے سے ملے گا کیا

اگر انسان ہو خودداریوں سے گھر بھرے رکھیو

شرابوں سے بھرے پیالے مجھے تکنے کی عادت ہے

بدن بھیگا رسیلے ہونٹ نینا مدھ بھرے رکھیو

نہ جانے کب کسی کے خواب سے یہ دل دھڑک جائے

اگر سونے لگو تو ہاتھ سینے پر دھرے رکھیو


ابراہیم اشک

No comments:

Post a Comment