Saturday 7 December 2013

سایہ گل سے بہر طور جدا ہو جانا

سایۂ گُل سے بہر طور جُدا ہو جانا
راس آیا نہ مجھے موجِ صبا ہو جانا
اپنا ہی جسم مجھے تیشۂ فرہاد لگا
میں نے چاہا تھا پہاڑوں کی صدا ہو جانا
موسمِ گُل کے تقاضوں سے بغاوت ٹھہرا
قفسِ غُنچہ سے خُوشبو کا رہا ہو جانا
قصرِ آواز میں اک حشر جگا دیتا ہے
اس حسِیں شخص کا تصویر نما ہو جانا
راہ کی گرد سہی، مائلِ پرواز تو ہوں
مجھ کو آتا ہے ترا بندِ قبا ہو جانا
زندگی تیرے تبسّم کی وضاحت تو نہیں
موجِ طوفاں کا اُبھرتے ہی فنا ہو جانا
کیوں نہ اس زخم کو میں پُھول سے تعبیر کروں
جس کو آتا ہو ترا بندِ قبا ہو جانا
اشکِ کم گو تجھے لفظوں کی قبا گر نہ ملے
میری پلکوں کی زباں سے ادا ہو جانا
قتلگاہوں کی طرح سُرخ ہے رستوں کی جبِیں
اِک قیامت تھا مِرا آبلہ پا ہو جانا
پہلے دیکھو تو سہی اپنے کرم کی وُسعت
پھر بڑے شوق سے تم میرے خُدا ہو جانا
بے طلب درد کی دولت سے نوازو مجھ کو
دل کی توہین ہے مرہونِ دُعا ہو جانا
میری آنکھوں کے سمندر میں اُترنے والے
کون جانے تِری قسمت میں ہے کیا ہو جانا
کتنے خوابیدہ خوابوں کو جگائے محسنؔ
جاگتی آنکھ کا پتھرایا ہُوا ہو جانا

محسن نقوی

No comments:

Post a Comment