Monday, 7 September 2015

تنہائیوں کے دشت میں بھاگے جو رات بھر

تنہائیوں کے دشت میں بھاگے جو رات بھر
وہ دن کو خاک جاگے گا، جاگے جو رات بھر
فکرِ معاش نے انہیں قِصہ بنا دیا 
سجتی تھیں اپنی محفلیں آگے جو رات بھر
وہ دن کی روشنی میں پریشان ہو گیا 
سلجھا رہا تھا بخت کے دھاگے جو رات بھر
کیا کیا نہ پیاس جاگے مرے دل کے دشت میں
حسرت بھی ایک آگ ہے، لاگے جو رات بھر
دشتِ غزل میں جانے کہاں تک چلے گئے
سوئے غزال قافیہ بھاگے جو رات بھر

عطا تراب

No comments:

Post a Comment