ہے عشق تو پھر اثر بھی ہو گا
جتنا ہے اِدھر اُدھر بھی ہو گا
مانا یہ کہ دل ہے اس کا پتھر
پتھر میں نہاں شرر بھی ہو گا
ہنسنے دے اسے لحد پہ میری
اک دن وہی نوحہ گر بھی ہو گا
نالہ مِرا گر کوئی شجر ہے
اک روز یہ بارور بھی ہو گا
ناداں نہ سمجھ جہان کو گھر
اس گھر سے کبھی سفر بھی ہو گا
مٹی کا ہی گھر نہ ہو گا برباد
مٹی تِرے تن کا گھر بھی ہو گا
زلفوں سے جو اس کی چھائے گی رات
چہرے سے عیاں قمر بھی ہو گا
گالی سے نہ ڈر جو دیں وہ بوسہ
ہے نفع جہاں ضرر بھی ہو گا
رکھتا ہے جو پاؤں رکھ سمجھ کر
اس راہ میں نذر سر بھی ہو گا
اس بزم کی آرزو ہے بے کار
ہم سوں کا وہاں گزر بھی ہو گا
شہباز میں عیب ہی نہیں کل
ایک آدھ کوئی ہنر بھی ہو گا
سید محمد عبدالغفور شہباز
No comments:
Post a Comment