Thursday, 18 February 2021

جینا ہے سب کے ساتھ کہ انسان میں بھی ہوں

 جینا ہے سب کے ساتھ کہ انسان میں بھی ہوں

چہرے بدل بدل کے پریشان میں بھی ہوں

جھونکا ہوا کا چپکے سے کانوں میں کہہ گیا

اک کانپتے دیے🪔 کا نگہبان میں بھی ہوں

انکار اب تجھے بھی ہے میری شناخت سے

لیکن نہ بھول یہ تری پہچان میں بھی ہوں

آنکھوں میں منظروں کو جب آباد کر لیا

دل نے کیا یہ طنز کہ ویران میں بھی ہوں

اپنے سوا کسی سے نہیں دشمنی قمرؔ

ہر لمحہ خود سے دست و گریبان میں بھی ہوں


قمر اقبال

No comments:

Post a Comment