Saturday, 20 February 2021

نقیب بخت سارے سو چکے ہیں

 نقیب بخت سارے سو چکے ہیں

بالآخر بے سہارے سو چکے ہیں

کسی سے خواب میں ملنا ہے شاید

کہ وہ گیسو سنوارے سو چکے ہیں

مجھے بھی خود سے وحشت ہو رہی ہے

سبھی جذبے تمہارے سو چکے ہیں

کئی مایوس ماہی گیر آخر

سمندر کے کنارے سو چکے ہیں

شب تنہائی جوں توں کٹ رہی ہے

غم فرقت کے مارے سو چکے ہیں

مقفل پھر سے کر لو کوٹھری کو

سحر سو جاؤ تارے سو چکے ہیں


وقار سحر

No comments:

Post a Comment