Monday, 17 December 2012
شہر کی دھوپ سے پوچھیں کبھی گاؤں والے
بھری بہار میں اب کے عجیب پھول کھلے
چاندنی رات میں اس پیکرِ سیماب کے ساتھ
وہ دے رہا ہے دلاسے عمر بھر کے مجھے
کوئی نئی چوٹ پھر سے کھاؤ اداس لوگو
کس نے سنگ خامشی پھینکا بھرے بازار پر
طے کر نہ سکا زیست کے زخموں کا سفر بھی
تن پہ اوڑھے ہوئے صدیوں کا دھواں شام فراق
اب اے میرے احساس جنوں کیا مجھے دینا
Friday, 14 December 2012
خط میں لکھے ہوئے رنجش کے کلام آتے ہیں
کبھی فلک کو پڑا دل جلوں سے کام نہیں
یہ کیا کہا کہ داغ کو پہچانتے نہیں
ساز یہ کینہ ساز کیا جانیں
غضب کیا ترے وعدے پہ اعتبار کیا
چپکے چپکے رات دن آنسو بہانا یاد ہے
وصل ہو جائے يہيں حشر ميں کيا رکھا ہے
آج کی بات کو، کيوں کل پہ اٹھا رکھا ہے
محتسب پوچھ نہ تُو شيشے ميں کيا رکھا ہے
پارسائی کا لہو اس ميں بھرا رکھا ہے
کہتے ہيں آئے جوانی تو يہ چوری نکلے
ميرے جوبن کو لڑکپن نے چرا رکھا ہے
ڈھونڈو گے اگر ملکوں ملکوں ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم
بدن میں جب تک کہ دل ہے سالم تری محبت نہاں رہے گی
دائم پڑا ہوا ترے در پر نہیں ہوں میں
خاک ایسی زندگی پہ کہ پتھر نہیں ہُوں میں
کیوں گردشِ مدام سے گبھرا نہ جائے دل
انسان ہوں، پیالہ و ساغر نہیں ہُوں میں
یارب، زمانہ مجھ کو مٹاتا ہے کس لیے؟
لوحِ جہاں پہ حرفِ مکرر نہیں ہُوں میں
کیوں میں تسکین دل اے یار کروں یا نہ کروں
ناوک انداز جدھر دیدۂ جاناں ہوں گے
ہم نہ نکہت ہیں نہ گل ہیں جو مہکتے جاویں
آگ کی طرح جدھر جاویں، دہکتے جاویں
اے خوشا مست کہ تابوت کے آگے جس کے
آب پاشی کے بدل مئے کو چھڑکتے جاویں
جو کوئی آوے ہے نزدیک ہی بیٹھے ہے تِرے
ہم کہاں تک تِرے پہلو سے سرکتے جاویں
مقروض کے بگڑے ہوئے حالات کے مانند
مقروض کے بگڑے ہوئے حالات کے مانند
مجبور کے ہونٹوں پہ سوالات کے مانند
دل کا تیری چاہت میں عجب حال ہوا ہے
سیلاب سے برباد،۔ مکانات کے مانند
میں ان میں بھٹکے ہوئے جگنو کی طرح ہوں
اس شخص کی آنکھیں ہیں کسی رات کے مانند
اس ڈھب سے کیا کیجے ملاقات کہیں اور
دن کو تو ملو ہم سے، رہو رات کہیں اور
کیا بات کوئی اس بتِ عیّار کی سمجھے
بولے ہے جو ہم سے تو اِشارات کہیں اور
اس ابر میں پاؤں مَیں کہاں دخترِ رز کو
رہتی ہے مدام اب تو وہ بد ذات کہیں اور
کتنی بے ساختہ خطا ہوں میں
ہم کہ چہرے پہ نہ لائے کبھی ویرانی کو
شغل بہتر ہے عشق بازی کا
ہے ایک ہی جلوہ جو ادھر بھی ہے ادھر بھی
آئینہ بھی حیران ہے، اور آئینہ نگر بھی
ہو نُور پہ کچھ اور ہی اِک نُور کا عالم
اس رخ پہ جو چھا جائے مرا کیفِ نظر بھی
تھا حاصلِ نظارہ، فقط ایک تحیّر
جلوے کو کہے کون کہ اب گُم ہے نظر بھی
دل ٹھہرنے دے تو آنکھيں بھی جھپکتے جاويں
اے خدا آج اسے سب کا مقدر کر دے
اس کا سوچا بھی نہ تھا اب کے جو تنہا گزری
Thursday, 13 December 2012
حامی بھی نہ تھے منکر غالب بھی نہیں تھے
ہم اہلِ تذبذب کسی جانب بھی نہیں تھے
اس بار بھی دُنیا نے ہدف ہم کو بنایا
اس بار تو ہم شہ کے مصاحب بھی نہیں تھے
بیچ آئے سرِ قریۂ زر، جوہرِ پندار
جو دام ملے ایسے مناسب بھی نہیں تھے
کھوئے ہوئے اک موسم کی یاد میں
وہ مہتاب سی راتیں، گلاب جیسے دن
وہ گنجِ شہرِ وفا میں سحاب جیسے دن
وہ دن کہ جن کا تصّور متاعِ قریہ دل
وہ دن کہ جن کی تجلّی فروغ ہر محفل
گئے وہ دن تو آندھیروں میں کھو گئی منزل
ہے تاک میں دزدیدہ نظر دیکھیے کیا ہو
نہ آیا نامہ بر اب تک گیا تھا کہہ کے اب آیا
ملے کیا کوئی اس پردہ نشیں سے
دل چرا کر نظر چرائی ہے
تا بہ مقدور انتظار کیا
دل نے اب زور بے قرار کیا
دشمنی ہم سے کی زمانے نے
کہ جفاکار تجھ سا یار کیا
یہ توہّم کا کارخانہ ہے
یاں وہی ہے جو اعتبار کیا
ملنے لگے ہو دیر دیر دیکھیے کیا ہے کیا نہیں
تم تو کرو ہو صاحبی، بندے میں کچھ رہا نہیں
بُوئے گُل اور رنگِ گُل، دونوں ہیں دلکش اے نسیم
لیک بقدرِ یک نگاہ، دیکھئے تو وفا نہیں
شکوہ کروں ہوں بخت کا، اتنے غضب نہ ہو بُتاں
مجھ کو خدانخواستہ، تم سے تو کچھ گِلا نہیں
کب تلک یہ ستم اٹھائیے گا
ایک دن یونہی جی سے جائیے گا
شکلِ تصویرِ بے خودی کب تک
کسو دن آپ میں بھی آئیے گا
سب سے مل جل کہ حادثے سے پھر
کہیں ڈھونڈا بھی، تو نہ پائیے گا
عمر بھر ہم رہے شرابی سے
دلِ پُرخُوں کی اِک گلابی سے
جی ڈہا جائے ہے سحر سے، آہ
رات گزرے گی کس خرابی سے
کھلنا کم کم کلی نے سیکھا ہے
اُس کی آنکھوں کی نیم خوابی سے
نظروں میں اس نے مجھ سے اشارات آج کی
کیا تھا یہ خواب کچھ نہ کھلی بات آج کی
میں نے تو بھر نظر تجھے دیکھا نہیں ابھی
رکھیو حساب میں نہ ملاقات آج کی
اک بات تلخ کہہ کے کیا زہر عشق سب
تُو نے ہماری خوب مدارات آج کی
آج دل بے قرار ہے کیا ہے
درد ہے، انتظار ہے، کیا ہے
جس سے جلتا ہے دل جگر وہ آہ
شعلہ ہے یا شرار ہے، کیا ہے
یہ جو کھٹکے ہے دل میں کانٹا سا
مژہ ہے، نوکِ خار ہے، کیا ہے
شیفتہ ہجر میں تو نالۂ شب گیر نہ کھینچ
پابندئ وحشت میں زنجیر کے مشتاق
شب تم جو بزم غیر میں آنکھیں چرا گئے
کس سے بیان کیجیے حال دل تباہ کا
ہندو ہیں بت پرست مسلماں خدا پرست
بہہ چلا چشم سے یکبار جو اک دریا سا
بیٹھے بیٹھے مجھے کیا جانے یہ لہر آئی کیا
حرفِ مطلب کو مرے سُن کے بصد ناز کہا
"ہم سمجھتے نہیں، بکتا ہے تُو سودائی کیا"
شیخ جی! ہم تو ہیں ناداں، پر اُسے آنے دو
ہم بھی پوچھیں گے ہوئی آپ کی دانائی کیا
مدرسہ یا دیر تھا یا کعبہ یا بت خانہ تھا
خیال شب غم سے گھبرا رہے ہیں
ہمیں دن کو تارے نظر آرہے ہیں
دم وعظ کیسے مزے میں ہیں واعظ
بھرے جام کوثر کے چھلکا رہے ہیں
لگا دو ذرا ہاتھ اپنی گلے میں
جنازہ لیے دل کا ہم جارہے ہیں
اسیر جسم ہوں معیاد قید لا معلوم
ضبط اپنا شعار تھا نہ رہا
دل پہ کچھ اختیار تھا، نہ رہا
دلِ مرحوم کو خدا بخشے
ایک ہی غمگسار تھا، نہ رہا
آ، کہ وقتِ سکونِ مرگ آیا
نالہ ناخوشگوار تھا، نہ رہا
Monday, 10 December 2012
خوابیدگی درد کی محرم تو نہیں ہے
یہ شب ہے، ترا کاکُلِ پُرخم تو نہیں ہے
اِک ابر کی ٹھنڈک میں اسے بھول ہی جائیں
یادوں کی تپش، اتنی بھی مدھم تو نہیں ہے
اس عہد میں وابستگئ موسمِ گُل بھی
اب حلقۂ زنجیر سے کچھ کم تو نہیں ہے
ہم کہ منزل کا تصور نہ نظر میں رکھتے
یہ تو ہوتا کہ تِرا ساتھ سفر میں رکھتے
ہم اسیرانِ جنوں اپنی رہائی کے لیے
عزم پرواز کہاں جنبش پر میں رکھتے
ابرِ گِریہ سے تھی خود چاندنی افسردہ جمال
عکسِ مہتاب کو کیا روزن و در میں رکھتے
اک انتخاب وہ یادوں کے ماہ و سال کا تھا
جو حرفِ ابر زدہ، آنکھ میں ملال کا تھا
شکست آئینۂ جاں پہ سنگ زن رہنا
ہُنر اُسی کا تھا، جتنا بھی تھا، کمال کا تھا
یہ دیکھنا ہے کہ کھل کر بھی بادباں نہ کھلے
تو اس سے کتنا تعلّق ہوا کی چال کا تھا
اسے کیا خبر کہ پلک پلک روش ستارہ گری رہی
اسے کیا خبر کہ تمام شب کوئی آنکھ دل سے بھری رہی
کوئی تار تار نگاہ بھی تھی صد آئینہ، اسے کیا خبر
کسی زخم زخم وجود میں بھی ادائے چارہ گری رہی
میں اسیرِ شامِ قفس رہا مگر اے ہوائے دیارِ دل
سرِ طاقِ مطلعِ آفتاب، مِری نگاہ دھری رہی
کسی کی یاد سے ہم بے نیاز ہو جائیں
مگر یہ ڈر ہے کہیں رتجگے نہ سو جائیں
فضا اُداس، ستارے اُداس، رات اُداس
یہ زندگی ہے تو ہم بھی اُداس ہو جائیں
وہ سیلِ تند سے بچ کر نکل تو آئے ہیں
یہ خوف ہے نہ کنارے کہیں ڈبو جائیں
سیل گریہ ہے کوئی جو رگ جاں کھینچتا ہے
رنگ چاہت کے وہ آنکھوں پہ کہاں کھینچتا ہے
دل، کہ ہر بار محبت سے لہو ہوتا ہے
دل کو ہر بار یہی کار زیاں کھینچتا ہے
شاید اب کے بھی مِری آنکھ میں تحریر ہے وہ
لمحۂ یاد، کوئی حرفِ گماں کھینچتا ہے
سقف سکوں نہیں تو کیا سر پہ یہ آسماں تو ہے
سایۂ زلف اگر نہیں، دھوپ کا سائباں تو ہے
آنکھ کے طاق میں وہ ایک، جل اٹھا نجمِ نیم جاں
درد کی رات ہی سہی، کوئی سحر نشاں تو ہے
جاگ رہا ہوں رات سے لذتِ خواب کے لیے
نیند نہیں جو آنکھ میں جوئے شب رواں تو ہے
یہ حکم ہے کہ غم کشتگاں نہ رکھا جائے
بچے ہوؤں کا بھی کوئی گماں نہ رکھا جائے
جو فیصلہ ہی ہمارے خلاف ہونا ہے
تو فیصلے میں ہمارا بیاں نہ رکھا جائے
ہمارے ہاتھ ستاروں پہ پڑنے لگتے ہیں
ہمیں اسیر شبِ درمیاں نہ رکھا جائے
کیا ضروری ہے وہ ہمرنگ نوا بھی ہو جائے
تم جدھر چاہو، اُدھر کو یہ ہوا بھی ہو جائے
اپنے پر نوچ رہا ہے، تِرا زندانئ دل
اسے ممکن ہے رہائی کی سزا بھی ہو جائے
دل کا دامانِ دریدہ نہیں سلِتا، تو میاں
بھاڑ میں جائے اگر چاک رِدا بھی ہو جائے
دامن چاک ہی اے ہم نفساں ایسا تھا
رات ایسی تھی کہاں، چاند کہاں ایسا تھا
ہم ہواؤں کو لیے پھرتے تھے زنجیر بکف
رات اس دشت کی وحشت پہ گماں ایسا تھا
دل کہاں بوجھ اُٹھاتا شب تنہائی کا
یہ تِرا قربِ جدائی مری جاں ایسا تھا
Sunday, 9 December 2012
تجھے بھلا کے جیوں ایسی بددعا بھی نہ دے
خُدا مجھے یہ تحمّل، یہ حوصلہ بھی نہ دے
مِرے بیانِ صفائی کے درمیاں مت بول
سُنے بغیر مجھے، اپنا فیصلہ بھی نہ دے
یہ عمر میں نے تِرے نام بے طلب لکھ دی
بھلے سے دامنِ دل میں کہیں جگہ بھی نہ دے
چاند بھی نکلا ستارے بھی برابر نکلے
مجھ سے اچھے تو شبِ غم کے مقدّر نکلے
شام ہوتے ہی برسنے لگے کالے بادل
صبحدم لوگ دریچوں میں کھلے سر نکلے
کل ہی جن کو تری پلکوں پہ کہیں دیکھا تھا
رات اسی طرح کے تارے مری چھت پر نکلے
کس کے جلووں کی دھوپ برسی ہے
آج تو شام بھی سحر سی ہے
اہلِ غم ہیں کہ صبح کی تصویر
دل بجھا سا ہے، آنکھ ترسی ہے
کیوں نہ کھینچے دلوں کو ویرانہ
اسکی صورت بھی اپنے گھر کی سی ہے
چاند ہی نکلا نہ بادل ہی چھما چھم برسا
یونہی مر مر کے جئیں وقت گزارے جائیں
یہ دل کسی بھی طرح شام غم گزار تو دے
یوں تجھے ڈھونڈنے نکلے کہ نہ آئے خود بھی
روگ ایسے بھی غم یار سے لگ جاتے ہیں
عاشقی میں میر جیسے خواب مت دیکھا کرو
منزل دوست ہے کیا کون و مکاں سے آگے
تجھے ہے مشق ستم کا ملال ویسے ہی
Saturday, 8 December 2012
پھرے گا تو بھی یونہی کوبکو ہماری طرح
گل بھی گلشن میں کہاں غنچہ دہن تم جیسے
سو صلیبیں تھیں ہر اک حرف جنوں سے پہلے
نبھاتا کون ہے قول و قسم تم جانتے تھے
بے تعلق میں خود اپنے ہی گھرانے سے ہوا
اور یہ سانحہ، دیوار اُٹھانے سے ہوا
میری مٹّی تھی کہاں کی، تو کہاں لائی گئی
بے زمیں میں جو ہوا بھی تو ٹھکانے سے ہوا
کام جتنا تھا محبت کا، محبت نے کیا
جتنا ہونا تھا زمانے سے، زمانے سے ہوا
شہر میں جب غنچہ دہنی گل پیرہنی مقبول ہوئی
زُہرہ جبینوں، ماہ وشوں کو بے مہری معمول ہوئی
دلزدگاں کی بات ہی کیا ہے، دلزدگاں کی بات نہ کر
رات کا قصّہ ختم ہوا جب ان کی حکایت طول ہوئی
ہجر کی رُت سوغات بنی، ہم سوختگاں کی بات بنی
جلتے جلتے جل گئے اتنا، راکھ بھی آخر دھول ہوئی
ہم ہی ممکن ہے ترے ناز اٹھانے لگ جائیں
پہلے یہ زخم پرانے تو ٹھکانے لگ جائیں
تیرے آوارہ، چلو ہم ہی رہیں گے، لیکن
یہ نہ ہو، تجھ کو بھلانے میں زمانے لگ جائیں
روک لو اپنے سلگتے ہوئے جذبوں کے شرار
اس سے پہلے کہ کوئی حشر اٹھانے لگ جائیں
Wednesday, 5 December 2012
فضا میں رنگ نہ ہوں آنکھ میں نمی بھی نہ ہو
وہ حرف کیا کہ رقم ہو تو روشنی بھی نہ ہو
وہ کیا بہار کہ پیوند خاک ہو کے رہے
کشاکش روش و رنگ سے بری بھی نہ ہو
کہاں ہے اور خزانہ، بجز خزانۂ خواب
لٹانے والا لٹاتا رہے، کمی بھی نہ ہو
غیروں سے داد جور و جفا لی گئی تو کیا
گھر کو جلا کے خا ک اُڑا دی گئی تو کیا
غارتِ گرئ شہر میں شامل ہے کون کون
یہ بات اہلِ شہر پر کھل بھی گئی تو کیا
اِک خواب ہی تو تھا جو فراموش ہو گیا
اِک یاد ہی تو تھی، جو بھلا دی گئی تو کیا
عذاب وحشت جاں کا صلہ نہ مانگے کوئی
نئے سفر کے لئے راستہ نہ مانگے کوئی
بلند ہاتھوں میں زنجیر ڈال دیتے ہیں
عجیب رسم چلی ہے دُعا نہ مانگے کوئی
تمام شہر مکرّم، بس ایک مجرم مَیں
سو میرے بعد، مِرا خُوں بہا نہ مانگے کوئی
بکھر جائیں گے کیا ہم جب تماشا ختم ہو گا؟
میرے معبود! آخر کب تماشا ختم ہو گا؟
چراغِ حجرۂ درویش کی بُجھتی ہوئی لَو
ہوا سے کہہ گئی ہے اب تماشا ختم ہو گا
کہانی آپ اُلجھی ہے، کہ اُلجھائی گئی ہے؟
یہ عقدہ تب کُھلے گا جب تماشا ختم ہو گا
وحشت کا اثر خواب کی تعبیر میں ہوتا
اِک جاگنے والا میری تقدیر میں ہوتا
اِک عالمِ خوبی ہے میسّر، مگر اے کاش
اُس گُل کا علاقہ میری جاگیر میں ہوتا
اُس آہوئے رم خوردہ و خوش چشم کی خاطر
اِک حلقۂ خوشبو میری زنجیر میں ہوتا
شہر گل کے خس و خاشاک سے خوف آتا ہے
جس کا وارث ہوں اُسی خاک سے خوف آتا ہے
شکل بننے نہیں پاتی، کہ بگڑ جاتی ہے
نئی مٹی کو ابھی چاک سے خوف آتا ہے
وقت نے ایسے گھمائے اُفق آفاق، کہ بس
محورِ گردشِ سفاک سے خوف آتا ہے
آسمانوں پر نظر کر انجم و مہتاب دیکھ
صبح کی بنیاد رکھنی ہے تو پہلے خواب دیکھ
ہم بھی سوچیں گے دعائے بے اثر کے باب میں
اِک نظر تُو بھی تضادِ منبر و محراب دیکھ
دوش پر ترکش پڑا رہنے دے، پہلے دل سنبھال
دل سنبھل جائے تو سُوئے سینہٴ احباب دیکھ
سمجھ رہے ہیں اور بولنے کا یارا نہیں
جو ہم سے مل کے بچھڑ جائے وہ ہمارا نہیں
ابھی سے برف اُلجھنے لگی ہے بالوں سے
ابھی تو قرضِ ماہ و سال بھی اُتارا نہیں
سمندروں کو بھی حیرت ہوئی کہ ڈوبتے وقت
کسی کو ہم نے مدد کی لئے پکارا نہیں
Sunday, 2 December 2012
ہم اہل جبر کے نام و نسب سے واقف ہیں
سروں کی فصل جب سے اُتری تھی تب سے واقف ہیں
کبھی چھپے ہوئے خنجر، کبھی کھچی ہوئی تیغ
سپاہِ ظلم کہ ایک ایک ڈھب سے واقف ہیں
ہے رات یوں ہی تو دشمن نہیں ہماری کہ ہم
درازئ شبِ غم کے سبب سے واقف ہیں
گلی کوچوں میں ہنگامہ بپا کرنا پڑے گا
جو دل میں ہے اب اسکا تذکرہ کرنا پڑے گا
نتیجہ کربلا سے مختلف ہو، یا وہی ہو
مدینہ چھوڑنے کا فیصلہ کرنا پڑے گا
وہ کیا منزل، جہاں راستے آگے نکل جائیں
سو اب پھر ایک سفر کا سلسلہ کرنا پڑے گا
Wednesday, 28 November 2012
سیاہ خانۂ امید رائگاں سے نکل
آئینہ لے لے صبا پھر آئی
بجھتی آنکھوں میں ضیا پھر آئی
تازہ رس لمحوں کی خوشبو لے کر
گُل زمینوں کی ہوا پھر آئی
سرمئ دیس کے سپنے لے کر
شبنمِ زمزمہ پا پھر آئی
کبھی جب مدتوں کے بعد اس کا سامنا ہو گا
وہ سامنے ہوں مرے اور نظر جھکی نہ رہے
وہ سامنے ہوں مِرے اور نظر جھکی نہ رہے
متاع زیست لٹا کر کوئی کمی نہ رہے
دئیے جلائے ہیں میں نے کھلے دریچوں پر
اے تند و تیز ہوا! تجھ کو برہمی نہ رہے
بتاؤ ایسا بھی منظر نظر سے گزرا ہے
چراغ جلتے رہیں اور روشنی نہ رہے
Tuesday, 27 November 2012
کب پتا یار کو ہم اپنے لکھا کرتے ہیں
پا بہ زنجیر کرے طوق بنے دار بنے
دشت خواہش میں کہیں سے تو صدا دے کوئی
اِک بار تو ایسی بھی جسارت کبھی کر جا
وہ جس کے نین نقش اپنے ذہن میں اتر گئے
Sunday, 18 November 2012
اب ہے خوشی خوشی میں نہ غم ہے ملال میں
دنیا سے کھو گیا ہوں تمہارے خیال میں
مجھ کو نہ اپنا ہوش نہ دنیا کا ہوش ہے
مست ہو کے بیٹھا ہوں میں تمہارے خیال میں
تاروں سے پوچھ لو میری رودادِ زندگی
راتوں کو جاگتا ہوں تمہارے خیال میں
اس کرب مسلسل سے گزر کیوں نہیں جاتا
احساس میرا زندہ ہے، مر کیوں نہیں جاتا
گُلزارِ تمنّا سے مہک کیوں نہیں اُٹھتی
یہ موسمِ بے برگ و ثمر کیوں نہیں جاتا
خنجر تھا اگر میں، تو میرے وار کہاں ہیں
میں وقت کے سینے میں اُتر کیوں نہیں جاتا
جاگیں گے کسی روز تو اس خواب طرب سے
ہم پُھول ہی چُنتے رہے باغیچۂ شب سے
پھر ایک سفر اور وہی حرفِ رفاقت
سمجھے تھے گزر آئے ہیں ہم تیری طلب سے
خُوش دل ہے اگر کوئی تو کیا اس کا یہاں کام
یہ بارگہِ غم ہے، قدم رکھو ادب سے
آیا نہ ہو گا اس طرح حسن و شباب ریت پر
آیا نہ ہو گا اس طرح حُسن و شباب ریت پر
گلشنِ فاطمہؓ کے تھے سارے گلاب ریت پر
آلِ بتولؓ کے سوا کوئی نہیں کھلا سکا
قطرۂ آب کے بغیر اتنے گلاب ریت پر
عشق میں کیا بچائیے، عشق میں کیا لٹائیے
آلِ نبیؐ نے لکھ دیا سارا نصاب ریت پر
کیسے کروں بیان میں رتبہ حسین کا
ناناؐ کے دِیں کے واسطے صدقہ حسین کا
غلبہ ہے آج پھر سے، غاصب یزید کا
مقصود پھر ہے آج وہ جذبہ حسین کا
ظالم کے ظلم و جبر پہ تڑپی تھی سرزمیں
رویا تھا کتنے درد سے کوچہ حسین کا
بقائے عظمت انسان ہے پیام حسین
Wednesday, 31 October 2012
بدل گیا ہے وہ فرسودہ عاشقی کا نظام
چنا ہے مجھ کو نئے عاشقوں نے اپنا اِمام
جہاں سے سیکھ کے آتے ہیں گفتگو دریا
وہیں سے مجھ پہ اتارا گیا یہ درد کلام
کھلا مِلا تھا وہ آنکھوں کا مے کدہ شب بھر
نہ پوچھ کیسے چڑھاۓ ہیں ہم نے جام پہ جام
وہ اس زمین پہ رہتی تھی آسماں کی طرح
کوئی نہیں ہے یہاں آج میری ماں کی طرح
اب آنسوؤں کی کتابیں کبھی نہ لِکھوں گا
کہ ڈال دی ہے نئی نالہ و فغاں کی طرح
اسی کے دَم سے یہ مٹی کا گھر منور تھا
وہ جس کی قبر چمکتی ہے کہکشاں کی طرح
سوال ایک تھا لیکن ملے جواب بہت
ان نگاہوں کو ہم آواز کیا ہے میں نے
تب کہیں گِیت کا آغاز کیا ہے میں نے
ختم ہو تاکہ ستاروں کی اجارہ داری
خاک کو مائلِ پرواز کیا ہے میں نے
آپ کو اِک نئی خِفت سے بچانے کے لیے
چاندنی کو نظر انداز کیا ہے میں نے
Monday, 29 October 2012
وہ مرے دل کا حال کیا جانے
سوزِ رنج و ملال کیا جانے
ہر قدم فتنہ ہے، قیامت ہے
آسماں تیری چال کیا جانے
صبر کو سب کمال کہتے ہیں
عاشقی یہ کمال کیا جانے
کس کو دیکھا ہے یہ ہوا کیا ہے
دِل دھڑکتا ہے، ماجرا کیا ہے
اِک محبت تھی، مِٹ چُکی یاربّ
تیری دُنیا میں اب دھرا کیا ہے
دل میں لیتا ہے چُٹکیاں کوئی
ہائے، اِس درد کی دوا کیا ہے
ان رس بھری آنکھوں میں حیا کھیل رہی ہے
دو زہر کے پیالوں پہ قضا کھیل رہی ہے
ہیں نرگس و گُل کِس لئے مسحُورِ تماشا
گُلشن میں کوئی شوخ ادا کھیل رہی ہے
اس بزم میں جائیں تو یہ کہتی ہیں ادائیں
کیوں آئے ہو، کیا سر پہ قضا کھیل رہی ہے
مجھ کو تڑپتا چھوڑ کر پیاری چلی جاؤ گی کیا
میری نگاہِ شوق کو فُرقت میں ترساؤ گی کیا
اُف حشرتک یہ چاند سی صورت نہ دِکھلاؤ گی کیا
اور پھر نہیں آؤ گی کیا
پیاری چلی جاؤ گی کیا
جو بہاروں میں نہاں رنگ خزاں دیکھتے ہیں
دیدۂ دل سے وہی سیرِ جہاں دیکھتے ہیں
ایک پردہ ہے غموں کا، جسے کہتے ہیں خوشی
ہم تبسم میں نہاں، اشکِ رواں دیکھتے ہیں
دیکھتے دیکھتے کیا رنگ جہاں نے بدلے
دیدۂ اشک سے نیرنگِ جہاں دیکھتے ہیں
عید آئی آ کہ ساقی عید کا ساماں کریں
دن ہے قُربانی کا، ہم بھی توبہ کو قُرباں کریں
مۓ کدے کے بام پر چڑھ کر اذانِ شوق دیں
مست ہیں، یوں پیروئ شیوۂ ایماں کریں
انجم و گُل سے کریں آراستہ بزمِ طرب
ساغرِ ناپید کو اس بزم میں رقصاں کریں
Sunday, 21 October 2012
تن کی سوکھی دھرتی پر جب نام لکھا تنہائی کا
پھولوں رنگوں خوشبوؤں کی باتیں کرنے سے
ترک الفت کو نہ اب اور ہوا دی جائے
اک بجھ گیا اک اور دیا لے کے آ گئی
طواف شہر ناپُرساں میں اپنا دن گُزرتا ہے
Friday, 12 October 2012
بہار نام کی ہے کام کی بہار نہیں
کہ دستِ شوق کسی کے گلے کا ہار نہیں
رہے گی یاد اُنہیں بھی، مُجھے بھی، وصل کی رات
کہ اُن سا شوخ نہیں، مُجھ سا بے قرار نہیں
سحر بھی ہوتی ہے چلتے ہیں اے اجل ہم بھی
اب اُن کے آنے کا ہم کو بھی اِنتظار نہیں
اے دل وہ عاشقی کے فسانے کدھر گئے
وہ عُمر کیا ہوئی، وہ زمانے کِدھر گئے
تھے وہ بھی کیا زمانے کہ رہتے تھے ساتھ ہم
وہ دن کہاں ہیں، اب وہ زمانے کِدھر گئے
ہے نجد میں سکوت، ہواؤں کو کیا ہُوا
لیلائیں ہیں خموش، دِوانے کِدھر گئے
کافر بنوں گا کفر کا ساماں تو کیجئے
نور رگوں میں دوڑ جائے پردۂ دل جلا تو دو
شام غم کی نہیں سحر شاید
یونہی تڑپیں گے عُمر بھر شاید
حالِ دل سے مِرے ہیں سب واقف
صرف تُو ہی ہے بے خبر شاید
روز دیدار تیرا کرتا ہوں
تجھ کو حیرت ہو جان کر شاید
ملا جو موقع تو روک دوں گا جلال روز حساب تیرا
گلشن کی تباہی کا الم کم تو نہیں ہے
دل خوں ہے مگر فرصتِ ماتم تو نہیں ہے
ڈر یہ ہے کہ مانوس نہ ہو جاؤں خزاں سے
معلوم ہے پھولوں کا یہ موسم تو نہیں ہے
یہ سچ ہے کہ ہر غم کو بھلا دے گا زمانہ
لیکن یہ کسی زخم کا مرہم تو نہیں ہے
میں اس سے قیمتی شے کوئی کھو نہیں سکتا
امی جان
میں اِس سے قیمتی شے کوئی کھو نہیں سکتا
عدیلؔ ماں کی جگہ کوئی ہو نہیں سکتا
مِرے خدا! یہاں درکار ہے مسیحائی
میں اپنے خُون کو اشکوں سے دھو نہیں سکتا
یہ اور بات ہے ہو جائے معجزہ کوئی
یہ غم خُوشی میں بدل جائے، ہو نہیں سکتا
رونقیں گھر میں رہیں بس اسی آواز کے ساتھ
ہم، امی اور تنہائی
رونقیں گھر میں رہیں بس اُسی آواز کے ساتھ
گو تھیں تکلیف میں لیکن رہیں اعجاز کے ساتھ
بے غرض مِلتی رہیں ماں کی دُعائیں ہر دم
لوگ آواز لگاتے نہیں آواز کے ساتھ
وقتِ رُخصت بڑی رونق تھی، سو آیا یہ خیال
کون آئے گا یہاں اب مِری پرواز کے ساتھ؟
خبر تھی گھر سے وہ نکلا ہے مینہ برستے میں
جانے نشے میں کہ وہ آفت جاں خواب میں تھا
Saturday, 6 October 2012
بتان مہ وش اجڑی ہوئی منزل میں رہتے ہیں
دوستو یوں بھی نہ رکھو خم و پیمانہ کھلے
بول ہوا اس پار زمانے کیسے ہیں
اُجڑے شہر میں یار پُرانے کیسے ہیں
چاند اُترتا ہے اب کِس کِس آنگن میں
کِرنوں سے مِحرُوم گھرانے کیسے ہیں
لب بستہ دروازوں پر کیا بِیت گئی
گلیوں سے منسُوب افسانے کیسے ہیں
گلہ ہوا سے نہیں ہے ہوا تو اندھی تھی
مگر وہ برگ کہ ٹُوٹے تو پھر ہرے نہ ہوئے
مگر وہ سر کہ جھکے اور پھر کھڑے نہ ہوئے
مگر وہ خواب کہ بِکھرے تو بے نشاں ٹھہرے
مگر وہ ہاتھ کہ بِچھڑے تو استخواں ٹھہرے
گِلہ ہوا سے نہیں، تُندیٔ ہوا سے نہیں
کل شب دل آوارہ کو سینے سے نِکالا
ہوا کے واسطے اک کام چھوڑ آیا ہوں
دِیا جلا کے سرِ شام چھوڑ آیا ہوں
امانتِ سحر و شام چھوڑ آیا ہوں
کہیں چراغ، کہیں جام چھوڑ آیا ہوں
کبھی نصیب ہو فرصت تو اس کو پڑھ لینا
وہ ایک خط جو تیرے نام چھوڑ آیا ہوں
Thursday, 4 October 2012
کسی کے لمس سے پہلے بدن غبار کیا
پھر اس کے بعد جنوں کی ندی کو پار کیا
انہیں بگاڑ دیا جو صفوں کے ربط میں تھیں
جو چیزیں بکھری ہوئی تھیں انہیں قطار کیا
بنی تھیں پردۂ جاں پر ہزارہا شکلیں
خبر نہیں کسے چھوڑا، کسے شمار کیا
Saturday, 29 September 2012
زندگی ڈر کے نہیں ہوتی بسر جانے دو
فکرِ انجام کر انجام سے پہلے پہلے
جو میں نے چاہا تھا ہو جائے وہ ہوا تو نہیں
تیرے ابرووں کی حسیں کماں
دنیا کی طرف لوٹ کے آنے کے نہیں ہم
سچ بات یہ ہے تیرے زمانے کے نہیں ہم
آوارہ مزاجی بھی طبیعت نہیں اپنی
ویسے تو کسی طور ٹھکانے کے نہیں ہم
اب دیکھتے ہیں تیرگی جاتی ہے کہاں تک
اے تیرہ شبی شمع جلانے کے نہیں ہم
Monday, 24 September 2012
راز یہ سب کو بتانے کی ضرورت کیا ہے
دل سمجھتا ہے تِرے ذکر میں لذت کیا ہے
جس میں موتی کی جگہ ہاتھ میں مٹی آئے
اتنی گہرائی میں جانے کی ضرورت کیا ہے
اپنے حالات پہ مائل بہ کرم وہ بھی نہیں
ورنہ اس گردشِ دوراں کی حقیقت کیا ہے
گلہ تو آپ سے ہے اور بے سبب بھی نہیں
مگر ارادۂ اِظہار، زیرِ لب بھی نہیں
میں چاہتا ہوں کہ اپنی زباں سے کچھ نہ کہوں
میں صاف گو ہوں، مگر اتنا بے ادب بھی نہیں
جفا کی طرح، مجھے ترکِ دوستی بھی قبول
ملال جب بھی نہ تھا مجھ کو، اور اب بھی نہیں
زندگی میں لگ چکا تھا غم کا سرمایہ بہت
اِس لیے شاید گنوایا ہم نے کم، پایا بہت
راندۂ ہر فصلِ گُل ہم کب نہ تھے، جو اب ہوئے
سنتے ہیں یاروں کو یہ موسم بھی راس آیا بہت
وہ قریب آنا بھی چاہے اور گریزاں بھی رہے
اس کا یہ پِندارِ محبوبی مجھے بھایا بہت
Sunday, 16 September 2012
گرتے گرتے ایک طوفان قیامت زا ہوا
وہ جو اِک آنسو مژہ پر تھا مرے ٹھہرا ہوا
اب تو آنکھیں کھول او افتادۂ کُوئے حبیب
جھانکتا ہے کوئی دروازے سے شرمایا ہوا
ذرے ذرے میں تھی ساری، ایک موجِ انقلاب
منظرِ فطرت کو میں دیکھا کِیا، سہما ہوا
محبت میں جگر گزرے ہیں ایسے بھی مقام اکثر
کہ خود لینا پڑا ہے اپنے دل سے انتقام اکثر
کہاں حسنِ تمام یارو تکلیفِ کرم کوشی
بدل دیتی ہے دنیا اِک نگاہِ ناتمام اکثر
مِری رِندی بھی کیا رِندی، مِری مستی بھی کیا مستی
مِری توبہ بھی بن جاتی ہے مئے خانہ بہ جام اکثر
کام آخر جذبۂ بے اختیار آ ہی گیا
دل کچھ اس صورت سے تڑپا ان کو پیار آ ہی گیا
ہائے یہ حسنِ تصور کا فریبِ رنگ و بُو
میں یہ سمجھا، جیسے وہ جانِ بہار آ ہی گیا
ہاں، سزا دے اے خدائے عشق! اے توفیقِ غم
پھر زبانِ بے ادب پر ذکرِ یار آ ہی گیا
غم ہجراں کی ترے پاس دوا ہے کہ نہیں
Saturday, 15 September 2012
آوارہ; اے غمِ دل کیا کروں، اے وحشت دل کیا کروں
جگمگاتی جاگتی سڑکوں پہ آوارہ پھروں
غیر کی بستی ہے کب تلک دربدر مارا پھروں
اے غمِ دل کیا کروں، اے وحشتِ دل کیا کروں
رات کے ہاتھوں میں دن کی موہنی تصویر سی
سورج کا ہر اِک شے سے سروکار الگ ہے
ہے رات الگ ، صبح کا اخبار الگ ہے
کچھ خون کی سرخی سی چمکتی ہے زمین پر
سَر دھڑ سے الگ، ہاتھ سے تلوار الگ ہے
سنتے تھے بہت شور مسیحائی کا، جس کی
اب وقت پڑا ہے تو وہ بیمار الگ ہے
دل تباہ نے اک تازہ زندگی پائی
Sunday, 9 September 2012
تم کیا تھے
جب یہ جانا
تو دیر بہت ہو چکی تھی
بِنا دیکھے، بِنا جانے
ہم نے تو تَن مَن وار دیا
میرے پاس تھا ہی کیا
بہت خوبصورت جذبے لے کر چلا تھا میں
بڑے معصوم اور سچے تھے
اور میرے پاس تھا ہی کیا
جذبوں کی سچائی کے علاوہ
مگر بازارِ وفا میں
اب کوئی تاج محل نہیں بنے گا
ممتازوں نے پیدا ہونا چھوڑ دیا
شاہ جہان سے گزر گئے
اب معیارات بھی زمانے کے بدل گئے
شہنشاہوں کی جگہ جمہوریت نے سہرے باندھ لیے
Thursday, 6 September 2012
شب خانہ رقیب میں تا صبح سو چکے
Tuesday, 4 September 2012
میں ہوں انشا انشا انشا
عجب اک سانحہ سا ہو گیا ہے
سب نے انسان کو معبود بنا رکھا ہے
عشق بے دم ہے تو فردوس وفا مت ڈھونڈو
اب تو ہیں اس شوق گستاخانہ سے بیگانہ ہم
گھبرا کے شب ہجر کی بے کیف سحر میں
کہانیاں غم ہجراں کی میں نے کس سے کہیں
Saturday, 1 September 2012
شعر کسی کے ہجر میں کہنا حرف وصال کسی سے
کب ہم نے کہا تھا ہمیں دستار و قبا دو
فاصلے اتنے بڑھے ہجر میں آزار کے ساتھ
Thursday, 30 August 2012
نہ انتظار کی لذت نہ آرزو کی تھکن
یہی بہت ہے کہ محفل میں ہم نشیں کوئی ہے
یہ دل کا چور کہ اس کی ضرورتیں تھیں بہت
Tuesday, 28 August 2012
ہم تو یوں خوش تھے کہ اک تار گریبان میں ہے
سن بھی اے نغمہ سنج کنج چمن اب سماعت کا اعتبار کسے
دہن پر ہیں ان کے گماں کیسے کیسے
کلام آتے ہیں درمیاں کیسے کیسے
زمینِ چمن، گل کھِلاتی ہے کیا کیا
بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے
تمہارے شہیدوں میں داخل ہوئے ہیں
گُل و لالہ و ارغواں کیسے کیسے
ہوئے نامور بے نشاں کیسے کیسے
زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے
تری بانکی چتون نے چُن چُن کے مارے
نکیلے سجیلے جواں کیسے کیسے
نہ گُل ہیں نہ غُنچے نہ بُوٹے نہ پتّے
ہوئے باغ نذرِ خزاں کیسے کیسے
Sunday, 26 August 2012
کبھی لہریں ترا چہرہ جو بنانے لگ جائیں
میری آنکھیں مُجھے دریا میں بہانے لگ جائیں
کبھی اِک لمحۂ فُرصت جو میسّر آ جائے
میری سوچیں مُجھے سُولی پہ چڑھانے لگ جائیں
انتظار اس کا نہ اتنا بھی زیادہ کرنا
کیا خبر، برف پِگھلنے میں زمانے لگ جائیں
میری داستان الم تو سن کوئی زلزلہ نہیں آئے گا
میرا مُدعا نہیں آئے گا، تیرا تذکرہ نہیں آئے گا
میری زندگی کے النگ میں کئی گھاٹیاں کئی موڑ ہیں
تیری واپسی بھی ہوئی اگر تُجھے راستہ نہیں آئے گا
اگر آئے دن تیری راہ میں تیری کھوج میں تیری چاہ میں
یونہی قافلے کہ جو لُٹ گئے، کوئی قافلہ نہیں آئے گا
Saturday, 25 August 2012
زندگی یوں تھی کہ جینے کا بہانہ تو تھا
ایسے چپ ہیں کہ یہ منزل بھی کڑی ہو جیسے
اپنی محبت کے افسانے کب تک راز بناؤ گے
جو سر بھی کشیدہ ہو اسے دار کرے ہے
یوں تو کہنے کو بہت لوگ شناسا میرے
تیرا غم اپنی جگہ دنیا کے غم اپنی جگہ
آنسو نہ روک دامن زخم جگر نہ کھول
ہم کو تو انتظار سحر بھی قبول ہے
راہوں پہ نظر رکھنا ہونٹوں پہ دعا رکھنا
پھول بن کر تری ہر شاخ پہ کھلتا میں تھا
خُوشبوئیں تُجھ میں اُترتی تھیں، مہکتا میں تھا
میری سانسوں میں گھُلی تھیں تِری صُبحیں شامیں
تیری یادوں میں گُزرتا ہوا عرصہ میں تھا
شور تھا جیسے سمندر میں ہو گِرتا دریا
اور جب غور سے دیکھا تو اکیلا میں تھا
تو معمہ ہے تو حل اس کو بھی کرنا ہے مجھے
تُو سمندر ہے تو پھر تہ میں اترنا ہے مجھے
تُو نے سوچا تھا کہ جلووں سے بہل جاؤں گا
ایسے کتنے ہی سرابوں سے گزرنا ہے مُجھے
قہر جتنا ہے تیری آنکھ میں برسا دے، مگر
اسی گرداب میں پھنس کر تو ابھرنا ہے مجھے
زمانہ خوش کہاں ہے سب سے بے نیاز کر کے بھی
چراغِ جاں کو نذرِ بادِ بے لحاظ کر کے بھی
غُلام گردشوں میں ساری عُمر کاٹ دی گئی
حصولِ جاہ کی روش پہ اعتراض کر کے بھی
خجل ہوئی ہیں قیامتیں، قیامتوں کے زعم میں
مذاق بن کے رہ گئیں ہیں قد دراز کر کے بھی
خزانہ زر و گوہر پہ خاک ڈال کے رکھ
ہم اہلِ مہر و محبت ہیں، دل نکال کے رکھ
ہمیں تو اپنے سمندر کی ریت کافی ہے
تُو اپنے چشمۂ بے فیض کو سنبھال کے رکھ
ذرا سی دیر کا ہے یہ عروجِ مال و منال
ابھی سے ذہن میں سب زاویے زوال کے رکھ
یہ کیا کہ خاک ہوئے ہم جہاں وہیں کے نہیں
جو ہم یہاں کے نہیں ہیں تو پِھر کہیں کے نہیں
وفا سرشت میں ہوتی، تو سامنے آتی
وہ کیا فلک سے نبھائیں گے جو زمیں کے نہیں
ہوا کی گرم خرامی سے پڑ رہے ہیں بھنور
یہ پیچ و تاب کسی موجِ تِہ نشیں کے نہیں
Thursday, 23 August 2012
جوگی
فردا
فروگذاشت
موسم وصال کا گیت
دھوپ کے کیسری بھیس میں
من کے سندیس میں
بن کے سورج مُکھی
آنکھ میں لہلہا
لال کپڑوں میں آ
لال کپڑوں میں آ
لمحہ لمحہ ہر اشارے پر سفر ہوتا رہا
تو رنگ ہے غبار ہیں تیری گلی کے لوگ
تُو پُھول ہے، شرار ہیں تیری گلی کے لوگ
تُو رونقِ حیات ہے، تُو حُسنِ کائنات
اُجڑا ہوا دیار ہیں تیری گلی کے لوگ
تُو پیکرِ وفا ہے، مجسّم خلوص ہے
بدنام روزگار ہیں تیری گلی کے لوگ
ہم مسافر ہیں میری جان
سوہنی دھیان
اس نے ان کچّے خوابوں کے بَل پر تیرنا کب سیکھا تھا؟
چڑھتے جوبن کے ساحل پر
اِک باغی خواہش کا موسم
اس کو پاگل کر دیتا تھا
اے غزال شب
اے غزالِ شب
تیری پیاس کیسے بجھاؤں میں
کہ دکھاؤں میں وہ سراب، جو میری جاں میں ہے
وہ سراب ساحرِ خوف ہے
جو سحر سے شام کے رہگزر میں
Wednesday, 22 August 2012
جو ہمسفر تھے ہوئے گرد راہ سب میرے
سب منتظر ہیں وار کوئی دوسرا کرے
میں اس سے چاہتوں کا ثمر لے کے آ گیا
کیا بھروسا ہے انہیں چھوڑ کے لاچار نہ جا
ہم نے ترے ملال سے رشتہ بحال کر لیا
راستہ بدلنے تک
اس سنگ سے بھی پھوٹی ہے کیا آبشار دیکھ
وائرس
بے بسی
ضد
تفریق
سادگی
یہاں بھی اک دن بہار ہو گی
کئی اور دکھ ہیں مجھ کو
Tuesday, 21 August 2012
اندر سے کوئی گھنگھرو چھنکے کوئی گیت سنیں تو لکھیں بھی
ہم دھیان کی آگ میں تپتے ہیں کچھ اور تپیں تو لِکھیں بھی
یہ لوگ بے چارے کیا جانیں کیوں ہم نے حرف کا جوگ لیا
اس راہ چلیں تو سمجھیں بھی، اس آگ جلیں تو لِکھیں بھی
دن رات ہوئے ہم وقفِ رفُو، اب کیا محفل، کیا فکرِ سخن
یہ ہات رُکیں تو سوچیں بھی، یہ زخم سِلیں تو لِکھیں بھی
دیکھ ہمارے ماتھے پر یہ دَشت طلب کی دھول میاں
Saturday, 18 August 2012
ذکر جہلم کا ہے بات ہے دینے کی
چاند پُکھراج کا، رات پشمینے کی
کیسے اوڑھے گی اُدھڑی ہوئی چاندی
رات کوشش میں ہے چاند کو سِینے کی
کوئی ایسا گِرا ہے نظر سے، کہ بس
ہم نے صُورت نہ دیکھی پِھر آئینے کی
Friday, 17 August 2012
رات کا پچھلا پہر ہے اور میں
جاگتا سوتا نگر ہے اور میں
میں کہ سنگ آسا ہُوا ہوں دوستو
کیسے جادو کا اثر ہے اور میں
حکم ہے جرعہ کشی کا دیکھئے
زہر لب پر قدح بھر ہے اور میں
کھوٹ اپنی کہہ سکیں جس سے کوئی ایسا بھی ہو
ہم تو پتھر ہیں، سفر میں اک عدد شِیشہ بھی ہو
بے تعلق شخص سے بہتر ہے وہ ساتھی مرا
غم میں جو ہنستا بھی ہو، تسکِیں مگر دیتا بھی ہو
یاد کچھ آتا نہیں، ہم نے اسے دیکھا کہاں؟
کیا خبر وہ خود بھی ہو، تصویر کا چہرہ بھی ہو
آنکھوں سے رنگ پھول سے خوشبو جدا رہے
روٹھی رہے حیات، وہ جب تک خفا رہے
اتنے قریب آ کہ نہ کچھ فاصلہ رہے
سانسوں کے ماسوا نہ کوئی سِلسلہ رہے
دستک کوئی نہ در پہ ہو لیکن لگن رہے
ہر لمحہ انتظار یہ کسی کا لگا رہے
Thursday, 16 August 2012
کل ہم نے سپنا دیکھا ہے
ہاں اے دل دیوانا
بنجارن کا بوجھ
پہلی بار بنجارن آئی
خوشیوں کی لیے کھاری
ہونٹ عنابی، باتیں شرابی
کھاری اس کی بھاری
ایک خوشی تو میں نہیں دوں گی
لیتی ہو لو ساری