منہ پھر نہ کر وطن کی طرف یوں وطن کو چھوڑ
چُھوٹے جو بُوئے گُل کی طرح سے چمن کو چھوڑ
اے روح! کیا بدن میں پڑی ہے بدن کو چھوڑ
میلا بہت ہُوا ہے، اب اس پیرہن کو چھوڑ
ہے روح کو ہوس کہ نہ چھوڑے بدن کا ساتھ
غربت پکارتی ہے کہ غافل، وطن کو چھوڑ
کہتی ہے بُوئے گُل سے صبا آ کے صبحدم
اب کچھ اِدھر اُدھر کی ہَوا کھا، چمن کو چھوڑ
تلوار چل رہی ہے کہ یہ تیری چال ہے
اے بُت خدا کے واسطے اِس بانکپن کو چھوڑ
شاعر کو فِکرِ شعر میں راحت کہاں امیرؔ
آرام چاہتا ہے تو مشقِ سخن کو چھوڑ
امیر مینائی
چُھوٹے جو بُوئے گُل کی طرح سے چمن کو چھوڑ
اے روح! کیا بدن میں پڑی ہے بدن کو چھوڑ
میلا بہت ہُوا ہے، اب اس پیرہن کو چھوڑ
ہے روح کو ہوس کہ نہ چھوڑے بدن کا ساتھ
غربت پکارتی ہے کہ غافل، وطن کو چھوڑ
کہتی ہے بُوئے گُل سے صبا آ کے صبحدم
اب کچھ اِدھر اُدھر کی ہَوا کھا، چمن کو چھوڑ
تلوار چل رہی ہے کہ یہ تیری چال ہے
اے بُت خدا کے واسطے اِس بانکپن کو چھوڑ
شاعر کو فِکرِ شعر میں راحت کہاں امیرؔ
آرام چاہتا ہے تو مشقِ سخن کو چھوڑ
امیر مینائی
No comments:
Post a Comment