Thursday 12 December 2013

منہ پھر نہ کر وطن کی طرف یوں وطن کو چھوڑ

منہ پھر نہ کر وطن کی طرف یوں وطن کو چھوڑ
چُھوٹے جو بُوئے گُل کی طرح سے چمن کو چھوڑ
اے روح! کیا بدن میں پڑی ہے بدن کو چھوڑ
میلا بہت ہُوا ہے، اب اس پیرہن کو چھوڑ
ہے روح کو ہوس کہ نہ چھوڑے بدن کا ساتھ
غربت پکارتی ہے کہ غافل، وطن کو چھوڑ
کہتی ہے بُوئے گُل سے صبا آ کے صبحدم
اب کچھ اِدھر اُدھر کی ہَوا کھا، چمن کو چھوڑ
تلوار چل رہی ہے کہ یہ تیری چال ہے
اے بُت خدا کے واسطے اِس بانکپن کو چھوڑ
شاعر کو فِکرِ شعر میں راحت کہاں امیرؔ
آرام چاہتا ہے تو مشقِ سخن کو چھوڑ

امیر مینائی

No comments:

Post a Comment