Monday, 2 November 2015

طلسم عشق تھا سب اس کا ساتھ ہونے تک

طلسمِ عشق تھا سب اس کا ساتھ ہونے تک
خیالِ درد نہ آیا نجات ہونے تک
مِلا تھا ہجر کے رستے میں صبح کی مانند
بچھڑ گیا تھا مسافر سے رات ہونے تک
عجیب رنگ بدلتی ہے اس کی نگری بھی
ہر ایک نہر کو دیکھا فرات ہونے تک
وہ اس کمال سے کھیلا تھا عشق کی بازی
میں اپنی فتح سمجھتا تھا مات ہونے تک
ہے اِستعارہ غزل اس سے بات کرنے کا
یہی وسِیلہ ہے اب اس سے بات ہونے تک
میں اس کو بھُولنا چاہوں تو کیا کروں عادلؔ
جو مجھ میں زندہ ہے خود میری ذات ہونے تک

تاجدار عادل

No comments:

Post a Comment