ہمارے سامنے کچھ ذکر غیروں کا اگر ہو گا
بشر ہیں ہم بھی صاحب دیکھیے ناحق کا شر ہو گا
نہ مُڑ کر تُو نے دیکھا اور نہ میں تڑپا، نہ خنجر
نہ دل ہووے گا تیرا سا،۔ نہ میرا سا جگر ہو گا
میں کچھ مجنوں نہیں ہوں جو کہ صحرا کو چلا جاؤں
تمہارے در سے سر پھوڑوں گا، سودا بھی اگر ہو گا
چمن میں لائی ہو گی تو صبا مشاطگی کر کے
جو گل سے آگے لپٹا ہے کسی بلبل کا پر ہو گا
تَری کا بھی وہی مالک ہے جو مالک ہے خشکی کا
مددگار اپنا ہر مشکل میں شاہِ بحر و بر ہو گا
تصور زُلف کا گر چھوڑ دوں مژگاں کا کھٹکا ہے
جو سر کے درد سے فُرصت ملی دردِ جگر ہو گا
طبیبو! تم عبث آئے، میں کشتہ ہوں فرنگن کا
مِری تدبیر کرنے کو مقرر ڈاکٹر ہو گا
کسی کو کوستے کیوں ہو دعا اپنے لیے مانگو
تمہارا فائدہ کیا ہے جو دشمن کا ضرر ہو گا
مزا آئے گا دیوانوں کی باتوں میں پری زادو
جو آغا کا کسی دن دشتِ مجنوں میں گزر ہو گا
آغا اکبرآبادی
No comments:
Post a Comment