Thursday 23 September 2021

تجربہ جو بھی ہے میرا میں وہی لکھتا ہوں

 تجربہ جو بھی ہے میرا میں وہی لکھتا ہوں

میں تصور کے بھروسے پہ نہیں بیٹھا ہوں

جب میں باہر سے بڑا سخت نظر آؤں گا

تم سمجھنا کہ میں اندر سے بہت ٹوٹا ہوں

جس کی خوشبو مجھے مسمار کیا کرتی ہے

میں اسی قبر پہ پھولوں کی طرح کھلتا ہوں

بارہا جسم نے پھر ذہن نے بیچا ہے مجھے

کیا میں قدرت کی دکانوں میں رکھا سودا ہوں

میرا ٹوٹا ہوا چشمہ ہی بھروسہ ہے مِرا

اپنی آنکھوں سے اپاہج میں کوئی بچہ ہوں

ڈوبتا دیکھ رہا ہوں میں خودی میں خود کو

دل کی اک بنچ پہ بیٹھا ہوا میں ہنستا ہوں


تری پراری

No comments:

Post a Comment