Wednesday 22 September 2021

آسماں سے ستارہ نہیں آئے گا

 آسماں سے ستارہ نہیں آئے گا

اب کوئی بھی اشارہ نہیں آئے گا

ہاتھ آئے گا وہ میرے تھوڑا بہت

وہ کسی طور سارا نہیں آئے گا

کیوں اِدھر مستقل دھوپ ہی دھوپ ہے

کیا اِدھر اَبر پارہ نہیں آئے گا؟

آئیں گے دوست سارے ہی ملنے، مگر

ایک بے اعتبارا نہیں آئے گا

یہ سڑک ناک کی سیدھ میں جائے گی

اس سڑک پر منارہ نہیں آئے گا

میں پرستان لکھتا چلا جاؤں گا

جن، پری استعارہ نہیں آئے گا

ختم ہو جائے گا یہ سمندر، سحر

اِس کا لیکن کنارہ نہیں آئے گا


سحرتاب رومانی

No comments:

Post a Comment