گئے دنوں کے دریچے سجانے لگتے ہیں
ہم اپنے حال کو ماضی بنانے لگتے ہیں
خلوص و مہر و محبت کی قدر ختم ہوئی
حیاتِ نو میں یہ سِکے پرانے لگتے ہیں
وہ کون ہے جو انہیں کھیلنے نہیں دیتا
وہ کم سِنی میں جو روزی کمانے لگتے ہیں
میں تیری زُلف کے سائے میں رُک تو جاؤں مگر
تِرے جمال کے شعلے جلانے لگتے ہیں
زمانے بعد تو آیا ہے لمحہ بھر تو ٹھہر
کہ آتے آتے یہ لمحہ زمانے لگتے ہیں
جنہوں نے قومی تشخص کو پائمال کیا
معاشرے کو وہ اونچے گھرانے لگتے ہیں
ہمیں وہ غیر سمجھتا ہے تو گِلہ کیسا
کہ ابتدا میں غلط بھی نشانے لگتے ہیں
یہ عشق بیل کبھی سُوکھتی نہیں نصرت
وصال رُت میں اسی کو فسانے لگتے ہیں
نصرت صدیقی
No comments:
Post a Comment