Thursday 12 December 2013

خواب تھا دیدۂ بیدار تلک آیا تھا

خواب تھا دیدۂ بیدار تلک آیا تھا
دشت بھٹکتا ہُوا دیوار تلک آیا تھا
اب میں خاموش اگر رہتا تو عزت جاتی
میرا دُشمن میرے کردار تلک آیا تھا
اتنا گریہ ہوا مقتل میں کہ توبہ توبہ
زخم خود چل کے عزادار تلک آیا تھا
عشق کچھ سوچ کے خاموش رہا تھا ورنہ
حُسن بِکتا ہوا بازار تلک آیا تھا
محسنؔ اس وقت مقدر نے بغاوت کر دی
جب میں اس شحص کے معیار تلک آیا تھا

محسن نقوی

No comments:

Post a Comment