وہ لوگ تو آنکھوں سے بھی دیکھا نہیں کرتے
جو دل کے دریچوں کو کبھی وا نہیں کرتے
ایسی ہی کشاکش میں اُلٹ جاتی ہے دنیا
سنبھلے نہ اگر دل تو سنبھالا نہیں کرتے
رکھتے ہیں محبت کو تغافل میں چُھپا کر
پرواہ ہی تو کرتے ہیں جو پرواہ نہیں کرتے
ہو گا کوئی ہم جیسا کہاں ہجر گزیدہ
ماتم بھی تو تنہائی کا تنہا نہیں کرتے
اس چاک گریبانی پہ سمجھانے لگے سب
دھاگے بھی یہ کہتے ہیں کہ اُلجھا نہیں کرتے
کہتے ہیں سبھی سست مگر آپ کہیں کیوں
کہہ دیں جو کبھی آپ تو ہم کیا نہیں کرتے
اختر کو بُرا کہتے کوئی بات نہیں تھی
غالب کو بُرا کہتے ہو اچھا نہیں کرتے
جنید اختر
No comments:
Post a Comment