Sunday, 12 February 2023

کوئی بچ نہیں پاتا ایسا جال بنتے ہیں

کوئی بچ نہیں پاتا ایسا جال بُنتے ہیں

کیسے کیسے قصے یہ ماہ و سال بنتے ہیں

جانے کتنی صدیوں سے ہر برس خزاں رُت میں

خشک پتے دھرتی پر ذرد شال بنتے ہیں

آج کل نہ جانے کیوں ذہن پر تناؤ ہے

ٹُوٹ پُھوٹ جاتا ہے جو خیال بنتے ہیں

شہر والے پوچھیں گے کچھ سبب جدائی کا

گھر کے خالی کونے بھی کچھ سوال بنتے ہیں

ہجر کے مناظر کو بھولنا ہی بہتر ہے

پیار کی طنابوں سے پھر وصال بنتے ہیں

حلقۂ محبت میں جو نظیر بن جائے

آؤ ہم وفاؤں کی وہ مثال بنتے ہیں

اب پُرانی باتوں کو کیا کریدنا شاہد

بُھول کر گزشتہ کو اپنا حال بنتے ہیں


شاہد فرید

No comments:

Post a Comment