خُود میں ہی ڈُوبتی اُبھرتی ہوں
جانے کس کو تلاش کرتی ہوں
دل میں جینے کی آرزو لے کر
میں کئی بار روز مرتی ہوں
بھر نہ جائے یہ زخم اے دل میرا
اس لیے چھیڑ چھاڑ کرتی ہوں
تم یوں ہی آئینہ بنے رہنا
میں تمہیں دیکھ کر سنورتی ہوں
خامشی مجھ کو راس آتی ہے
اس لیے توڑنے سے ڈرتی ہوں
بھاگتی ہوں وجود سے اپنے
اور کبھی خود ہی خود پہ مرتی ہوں
کیوں یہاں ہوں کہاں ہے اب جانا
خود سے اکثر سوال کرتی ہوں
میں گُریزاں ہوں خود سے کچھ ایسے
اپنے سائے سے بھی مٗکرتی ہوں
اس کی تصویر میں سمن اکثر
میں وفاؤں کے رنگ بھرتی ہوں
سُمن دُگل
No comments:
Post a Comment