Monday, 29 February 2016
جو عکس خواب میں رکھا گیا نہیں بدلا
بعد مدت وہ ہنسا ہو جیسے
جان جاتی تھی کار الفت میں
اگر نہ ہو گا کبھی اپنا رابطہ طے ہے
رات کی زلفیں بھیگی بھیگی اور عالم تنہائی کا
جب سر شام کوئی یاد مچل جاتی ہے
ہے اگرچہ شہر میں اپنی شناسائی بہت
تند مے اور ایسے کم سن کے لیے
Saturday, 27 February 2016
چاپ آئے کہ ملاقات ہو آوازے سے
نکھر سکا نہ بدن چاندنی میں سونے سے
ہم کیوں یہ کہیں کوئی ہمارا نہیں ہوتا
جی بہلتا ہی نہیں سانس کی جھنکاروں سے
چپکے سے نام لے کے تمہارا کبھی کبھی
نگہ شوق کو یوں آئینہ سامانی دے
نگاہ ناز تیری فتنہ سامانی نہیں جاتی
جب سے ان سے آنکھ لڑی ہے آنکھوں میں اپنی خواب نہیں
اس دل کے خونی دریا میں ہم پہلی بار نہیں اترے
وفا کے نام پہ یہ امتحان بھی دے دوں
کسی بہانے سہی دل لہو تو ہونا ہے
دھواں اٹھنے لگا جب دشتِ جاں سے
حضور یار چلے جب بھی سر جھکا کے چلے
اس نے دل پھینکا خریداروں کے بیچ
نظر کا وار تھا پہلا ہی قاتلانہ ہوا
جسے عدیم سدھارے ہوئے زمانہ ہوا
Thursday, 25 February 2016
مر گیا میں بھری جوانی میں
جس سے امید جانثاری کی
ترے لیے بھی رعایت تو ہو نہیں سکتی
ہنستا رہتا ہوں اور خوشی کم ہے
Tuesday, 23 February 2016
یہ دیوانے کبهی پابندیوں کا غم نہیں لیں گے
تجھے سنگ دل یہ پتا ہے کیا کہ دکھے دلوں کی صدا ہے کیا
اپنی مجبوری کو ہم دیوار و در کہنے لگے
شعر کہے اور ایماں اپنا تازہ کیا
مجھے کس شب ملال گریۂ شبنم نہیں ہوتا
مجھے بھلانے والے تجھے بھی چین نہ آئے
ساتھی تیرا میرا ساتھی ہے لہراتا سمندر
تم نے کہا تھا چپ رہنا سو چپ نے بھی کیا کام کیا
عہد حاضر پر مرے افکار کا سایہ رہا
Monday, 22 February 2016
کیا آخرت کا رنج کہ بھوکے ہیں پیٹ کے
اک وقت تو ایسا تھا کہ دن رات کڑے تھے
Sunday, 14 February 2016
بھڑکا دیا شعلوں کو یہ کس نے ہوا دی ہے
بھروسا کر لوں یہ میں کوئی باوفا تو لگے
جس طرف دیکھئے ہنگامہ بپا لگتا ہے
اگر نہیں ہے مری پیاس کے مقدر میں
یہی نہیں کہ بس اک سائبان ٹوٹتا ہے
کچھ خیال دل ناشاد تو کر لینا تھا
کھلا بھی دیتے ہیں کلیاں مسل بھی دیتے ہیں
ٹکڑے جگر کے آنکھ سے بارے نکل گئے
ارمان آج دل کے ہمارے نکل گئے
واحسرتا کہ لخت جگر تھے جو طفل اشک
آنکھوں کے سامنے سے ہمارے نکل گئے
شعلے ہمارے آہوں کے ایسے ہوئے بلند
ابروں سے آسماں کے ستارے نکل گئے
آتا تھا شکار گاہ سے شاہ
آتا تھا شکار گاہ سے شاہ
نظارہ کیا پسر کو ناگاہ
مہر لب شہ ہوئی خموشی
کی نور بصر سے چشم پوشی
دی آنکھ جو شہ نے رونمائی
چشمک سے نہ بھائیوں کو بھائی
عشق کے مراحل میں وہ بھی وقت آتا ہے
Thursday, 11 February 2016
دل جدا مال جدا جان جدا لیتے ہیں
جب خوبرو چھپاتے ہیں عارض نقاب میں
ایک دل ہمدم مرے پہلو سے کیا جاتا رہا
جھونکا ادھر نہ آئے نسیم بہار کا
Wednesday, 10 February 2016
تمہارے آخری خط کا جواب دینا ہے
فقط دیوار نفرت رہ گئی ہے
اداس بام ہے در کاٹنے کو آتا ہے
جسموں کے پگھلنے کا مہینا نہیں آیا
اپنوں میں اب وہ پیار کا منظر نہیں رہا
اب تو کبھی کھڑکی کبھی در کاٹ رہا ہے
جس طرح وہ چاقو سے ثمر کاٹ رہا ہے
Tuesday, 9 February 2016
میری وفائیں یاد کرو گے
لذت درد نے ممنون مداوا نہ کیا
ہوس کیا آرزو کیا مدعا کیا
جاؤ کہ اب وہ جوش تمنا نہیں رہا
Sunday, 7 February 2016
ہاتھ دنیا سے دھو کے دیکھتے ہیں
آستینوں میں نہ خنجر رکھئے
سفینے کا ناخدا بن گیا ہے
نگاہوں کا خسارہ کون دیکھے
روتی ہوئی آنکھوں کی روانی میں مرے ہیں
روشنی دیتے گمانوں کی طرح ہوتا ہے
جھلملاتے ہوئے تاروں کی طرح لگتا ہے
میں اگر راہ محبت میں بھی مارا جاتا
ایک مہتاب تھا پانی میں نکل آیا ہے
وہ جو رستے میں مل گیا تھا مجھے
زندہ رکھا گیا ہے نہ مارا گیا مجھے
رات مہکی ہے گیسوؤں کی طرح
زرد موسم میں کوئی سہارا ڈھونڈیں
بے اعتباریوں کا بھروسا ملا مجھے
جسم کے قید سے اک روز گزر جاؤ گے
دل کہ اک طوفاں زدہ کشتی بہ موج اشک غم
جس کا افسانہ شکستہ بادباں پر ہے رقم
دل کہ گھر اللہ کا لیکن بتوں کی جلوہ گاہ
فطرتاً وہ کس قدر معصوم لیکن متہم
اور اس تہمت کے پس منظر میں ان جذبوں کی دھوم
جن کی ہر لغزش خود اپنی حد میں بے حد محترم
ذات اک مبہم تصور کیا وجود اور کیا عدم
عقل اِک اندھی پجارن کیا خدا اور کیا صنم
حاسہ اک بے حقیقت کیف کیا سمع و بصر
خاصہ اک پر فریب احساس کیا جود و کرم
مادہ اک نا رسیدہ جسم کیا ارض و سما
ماہیت اک ناشنیدہ اسم کیا خلق و قدم
معمول پہ ساحل رہتا ہے فطرت پہ سمندر ہوتا ہے
شمع کی طرح شب غم میں پگھلتے رہیے
ترک محبت اپنی خطا ہو ایسا بھی ہو سکتا ہے
نہ خوف برق نہ خوف شرر لگے ہے مجھے
جھونکا تمہارے پیار کا چھو کر گزر گیا
ان چھوئے ساز کا ان سنا گیت ہے
جھکی نگاہیں چور میں جانوں
راتوں کو جاگوں اس کی لگن میں
کون سا ہمدم ہے تیرے عاشق بے دم کے پاس
کيا مد نظر تم کو ہے ياروں سے تو کہیے
Saturday, 6 February 2016
معلوم جو ہوتا ہميں انجام محبت
جان کے جی ميں سدا جينے کا ارماں ہی رہا
لپٹی ہوئی قدموں سے وہ راہگزر بھی
بلائے ناگہانی بھی پیام زندگانی بھی
فسردہ پا کے محبت کو مسکرائے جا
دل افسردوں کے اب وہ وقت کی گھاتیں نہیں ہوتیں
ہمیں سب اہل ہوس ناپسند رکھتے ہیں
کھڑے ہیں دل میں جو برگ و ثمر لگائے ہوئے
لے کے ہمراہ چھلکتے ہوئے پیمانے کو
عشق میں کون بتا سکتا ہے
احسان کسی شخص کا سر پر نہیں رکھتے
ہم ایسے تونگرہیں جو نوکر نہیں رکھتے
سرگرم سفر رہتے ہیں بستر نہیں رکھتے
کیا گھر کا پتہ دیں جو کوئی گھر نہیں رکھتے
لڑتے ہیں کڑی دھوپ سے دیوانے تمہارے
سر پر کوئی مانگی ہوئی چادر نہیں رکھتے
کیا جرم ہمارا ہے بتا کیوں نہیں دیتے
معاذ اللہ معاذ اللہ یہ دور دلآزاری
ٹھکراؤ اب کہ پیار کرو میں نشے میں ہوں
لوگ تیری آنکھوں کی مستیاں خریدیں گے
گجرا مہکا کنگنا کھنکا کھن کھن آدھی رات کے بعد
بے چینیوں کو گھول کے اپنے گلاس میں
اس برس میں کوئی پیمان نبھائے خوشبو
آنکھ کیا تجھ سے لڑائی اپنی
دھنک کی ساری چمک بادلوں کے نام ہوئی
کیا خطا ہو گئی فضاؤں سے
ورنہ رکنا تھا کہاں ہم نے ترے گاؤں میں
نہ جانے کیسی مری جاں میں آگ جلتی ہے
گلہ گزار نہ ہو گر ہوا نہيں آتی
تھک گيا جو بھی یہ طے راہگزر کرتا ہے
دل میں تھا جو بول دیا
بچھڑنے پر مجھے اکسا رہی ہے
جانے والوں سے پیار مت کرنا
میں نے جب وصل کا سوال کیا
Friday, 5 February 2016
اس حسن ہجریاب کا طرفہ جمال دیکھ
مرا نہیں تو وہ اپنا ہی کچھ خیال کرے
بھولو کبھی نہ دید کا فن دیکھتے رہو
جب بھی چپکے سے نکلنے کا ارادہ باندھا
تمہاری یاد میرے دل سے جب گزرتی ہے
وقت پھر وار کر نہ جائے کہیں
میرا چرچا جو گھر گھر میں ہوا ہے
اک خواب نا تمام کو تعبیر دے گیا
معصومیت بھی ہو ہنسی بے ساختہ بھی ہو
منجمد خون میں ہلچل کر دے
یہ جو اک سیل فنا ہے مرے پیچھے پیچھے
يہ زندگی کا قرينہ کرم اسی کا ہے
ادھر بھی تباہی ادھر بھی تباہی
چارہ گری کی گر تمہیں فرصت نہیں رہی
تنہائی بھی عذاب ہے محفل بھی دوستو
وطن کا نگہبان بنایا تھا جن کو
Thursday, 4 February 2016
نظریں چرا لو بند رکھو کان چپ رہو
پھول کی طرح برستے ہیں ترے شہر کے لوگ
دعاؤں میں ہو گا اثر دھیرے دھیرے
احساس آرزوئے بہاراں نہ پوچھیے
تیرا غم دور ہے یا نزد رگ جاں کوئی
یہ انتہائے جنوں ہے کہ غیر ہی سا لگا
یہ کیا ہوا کہ ہر اک رسم و راہ توڑ گئے
Wednesday, 3 February 2016
دشمنی ميں کچھ نہ کچھ تکرار کر سکتا ہوں ميں
اچھا ہے کسی اور نظارے سے جڑی ہے
اسی لیے تو بہت تلخ ہے زباں میری
یوں پاس بوالہوس رہیں چشم غضب سے دور
یوں پاس بوالہوس رہیں چشمِ غضب سے دور
یہ بات ہے بڑی دلِ عاشق طلب سے دور
دیوانہ میں نہیں کہ انا لیلیٰ لب پہ آئے
باتیں خلافِ وضع ہیں اہلِ ادب سے دور
مجھ کو سنا کے کہتے ہیں ہمدم سے، یاد ہے
اک آدمی کو چاہتے تھے ہم بھی اب سے دور
اٹھے نہ چھوڑ کے ہم آستان بادہ فروش
اٹھے نہ چھوڑ کے ہم آستانِ بادہ فروش
طلسمِ ہوش ربا ہےدکانِ بادہ فروش
کھلا جو پردہ روئے حقائقِ اشیاء
کھلی حقیقتِ رازِ نہانِ بادہ فروش
فسردہ طینتی و کاہلی سے ہم نے کبھی
شباب میں بھی نہ دیکھی دکانِ بادہ فروش
فرق پڑتا ہے تیری شان میں کیا
فرق پڑتا ہے تیری شان میں کیا
جان دے دیں تجھے لگان میں کیا
جاں کنی سے دلا نجات ہمیں
آخری تیر تھا کمان میں کیا
خاک اڑنے لگی زمینوں کی
جھانکتا ہے تُو آسمان میں کیا
غافل نہ رہیو اس سے تو اے یار آج کل
غافل نہ رہیو اس سے تو اے یار آج کل
مرتا ہے تیرے عشق کا بیمار آج کل
کیا جانیں کیا کرے گا وہ خونخوار آج کل
رکھتا بہت ہے ہاتھ میں تلوار آج کل
جو ہے سو آہ عشق کا بیمار ہے دِلا
پھیلا ہے بے طرح سے یہ آزار آج کل
جو چلن چلتے ہو تم کیا اس سے حاصل ہوئے گا
جو چلن چلتے ہو تم کیا اس سے حاصل ہوئے گا
خوں سے بہتوں کے غبار اس راہ کا گُل ہوئے گا
کیوں نہ کہتے تھے دِلا! شیریں لبوں کے منہ نہ لگ
ایک دن تجھ کو یہ شربت زہرِ قاتل ہوئے گا
چاک پر تیرے جو اب پھرتا ہے کوزہ اے کلال
یہ کبھو ہم سے کسی سرگشتہ کا دل ہوئے گا