Monday, 6 July 2020

کوئی مجنوں کوئی فرہاد بنا پھرتا ہے

کوئی مجنوں، کوئی فرہاد بنا پھرتا ہے
عشق میں ہر کوئی استاد بنا پھرتا ہے
جس سے تعبیر کی اک اینٹ اٹھائی نہ گئی
خواب کے شہر کی "بنیاد" بنا پھرتا ہے
پہلے کچھ لوگ پرندوں کے شکاری تھے یہاں
اب تو "ہر" آدمی "صیاد" بنا پھرتا ہے
دھوپ میں اتنی سہولت بھی غنیمت ہے مجھے
ایک "سایہ" مِرا "ہمزاد" بنا پھرتا ہے
باغ میں ایسی ہواؤں کا چلن عام ہوا
پھول سا ہاتھ بھی فولاد بنا پھرتا ہے
نقش بر آب تو ہم دیکھتے آئے، لیکن
نقش یہ کون سا برباد بنا پھرتا ہے

عمران عامی

No comments:

Post a Comment