Sunday, 14 February 2021

ستارے چاہتے ہیں ماہتاب مانگتے ہیں

 ستارے چاہتے ہیں، ماہتاب مانگتے ہیں

مِرے دریچے نئی آب و تاب مانگتے ہیں

وہ خوش خرام جب اس راہ سے گزرتا ہے

تو سنگ و خشت بھی اذنِ خطاب مانگتے ہیں

کوئی ہوا سے یہ کہہ دے؛ ذرا ٹھہر جائے

کہ رقص کرنے کی مہلت حباب مانگتے ہیں

عجیب ہے یہ تماشا  کہ میرے عہد کے لوگ

سوال کرنے سے پہلے جواب مانگتے ہیں

طلب کریں تو یہ آنکھیں بھی ان کو دے دوں میں

مگر یہ لوگ ان آنکھوں کے خواب مانگتے ہیں

یہ احتساب تو دیکھو کہ محتسب ہی نہیں

رکاب تھامنے والے حساب مانگتے ہیں

ستون و بام کی، دیوار و در کی شرط نہیں

بس ایک گھر تِرے خانہ خراب مانگتے ہیں


عباس رضوی​

No comments:

Post a Comment