Tuesday, 6 September 2022

سوٹ کو ماضی کا اک افسانہ کہہ

 سوٹ کو ماضی کا اک افسانہ کہہ

مجھ سے مسٹر کو بھی اب مولانہ کھ

دوستی باہر حسيناؤں سے رکھ

گھر ميں بيوی کو چراغ خانہ کہہ

دست پنجہ لے جو مطلب کے لیے

ايسے دستِ يار کو دستانہ کہہ

جو بيوٹي پارلر ميں خرچ ہو

اس کو اپنے حسن کا فطرانہ کہہ

فيس بابو کو اگر دينی پڑے

اس کو رشوت مت سمجھ نذرانہ کہہ

حسن کی گر ديکھنی ہو برہمی

ايک دن نسرين کو رخسانہ کہہ

ہر جواں عورت کو اپنی باجی مت بنا

جو معمر ہے انہيں آپا نہ کہہ

صرف اتنا کر کہ مجھ کو مت سنا

بيس غزليں شوق سے روزانہ کہہ

قول مرداں جان داروں سرفراز

بات سچي ہو تو بے باکانہ کہہ


سرفراز شاہد

No comments:

Post a Comment