آتشیں لہر، نہ "برفاب" میں رکھی جائے
شبِ غنودہ مِرے اعصاب میں رکھی جائے
جس کے کردار پرندوں کی طرح اڑتے ہوں
وہ کہانی مِرے "اسباب" میں رکھی جائے
غار در غار بھٹکتے ہوئے میں چیخ اٹھا
روشنی اب کسی محراب میں رکھی جائے
آنکھ لگ جائے تِری چاند کی لوری سن کر
پھر تِری نیند مِرے خواب میں رکھی جائے
اتنا آسان نہیں میرا "جنونی" ہونا
تیری تصویر بھی مہتاب میں رکھی جائے
جس جگہ پھول کے بھی پنکھ ہوں تتلی کی طرح
آنکھ اس قریۂ شاداب میں رکھی جائے
دھوپ جب مشک لیے اترے تو مایوس نہ ہو
چشم گریہ کوئی تالاب میں رکھی جائے
شبِ غنودہ مِرے اعصاب میں رکھی جائے
جس کے کردار پرندوں کی طرح اڑتے ہوں
وہ کہانی مِرے "اسباب" میں رکھی جائے
غار در غار بھٹکتے ہوئے میں چیخ اٹھا
روشنی اب کسی محراب میں رکھی جائے
آنکھ لگ جائے تِری چاند کی لوری سن کر
پھر تِری نیند مِرے خواب میں رکھی جائے
اتنا آسان نہیں میرا "جنونی" ہونا
تیری تصویر بھی مہتاب میں رکھی جائے
جس جگہ پھول کے بھی پنکھ ہوں تتلی کی طرح
آنکھ اس قریۂ شاداب میں رکھی جائے
دھوپ جب مشک لیے اترے تو مایوس نہ ہو
چشم گریہ کوئی تالاب میں رکھی جائے
دانیال طریر
No comments:
Post a Comment