Wednesday, 7 October 2015

گیا کہ سیل رواں کا بہاؤ ایسا تھا

گیا کہ "سیلِ رواں" کا بہاؤ ایسا تھا
وہ ایک خواب جو کاغذ کی ناؤ ایسا تھا
کسی کو بھی نہ تھا آسان سانس کا لینا
مِری زمیں پہ "ہوا" کا دباؤ ایسا تھا
لہو کی دھار سلامت رہی، نہ سانس کا تار
مجھے جو کاٹ گیا، وہ "کٹاؤ" ایسا تھا
وہ ٹمٹماتا تو اس کی ضیا بھی کم پڑتی
کسی دِیے سے "لہو" کا لگاؤ ایسا تھا
وہ ایک تھا جو مجھے چار سُو دکھائی دیا
میں جنگ ہار گیا ہوں کہ "داؤ" ایسا تھا
مجھے تو لاج کے اُجلے لباس میں وہ بدن
گُلاب برف میں جیسے "چھپاؤ" ایسا تھا
بنے ہیں ناگ، مِرے بن میں پیڑ جتنے تھے
لگی ہے آگ، صبا کا "سبھاؤ" ایسا تھا

دانیال طریر 

No comments:

Post a Comment