Wednesday, 2 March 2022

کچھ عجیب عالم ہے ہوش ہے نہ مستی ہے

 کچھ عجیب عالم ہے ہوش ہے نہ مستی ہے

یہ طویل تنہائی سانپ بن کے ڈستی ہے

نغمۂ تبسم سے لب ہیں اب بھی نامحرم

شاخ آرزو اب بھی پھول کو ترستی ہے

ہم غریب کیا جانیں مول زندگانی کا

ہم کو کیا پتہ یہ شے مہنگی ہے کہ سستی ہے

آؤ ہم بھی دیکھیں گے اس دیار میں چل کر

کیسے لوگ رہتے ہیں کس طرح کی بستی ہے

خوبرو تمنائیں،۔۔۔ خوش لباس امیدیں

شہر دل کی بستی بھی کیا حسین بستی ہے


حسن عابد

No comments:

Post a Comment