کچھ عجیب عالم ہے ہوش ہے نہ مستی ہے
یہ طویل تنہائی سانپ بن کے ڈستی ہے
نغمۂ تبسم سے لب ہیں اب بھی نامحرم
شاخ آرزو اب بھی پھول کو ترستی ہے
ہم غریب کیا جانیں مول زندگانی کا
ہم کو کیا پتہ یہ شے مہنگی ہے کہ سستی ہے
آؤ ہم بھی دیکھیں گے اس دیار میں چل کر
کیسے لوگ رہتے ہیں کس طرح کی بستی ہے
خوبرو تمنائیں،۔۔۔ خوش لباس امیدیں
شہر دل کی بستی بھی کیا حسین بستی ہے
حسن عابد
No comments:
Post a Comment