لطف پیمان بار بار کہاں
لذت سوز انتظار کہاں
کیا ہوئیں بیقراریاں دل کی
وہ تمنائے وصل یار کہاں
وہ تقاضائے شوق دید کجا
روح کو اب وہ اضطرار کہاں
جوش وحشت کے وہ مزے نہ رہے
وہ گریباں تار تار کہاں
مےکشی کی وہ بات جاتی رہی
اب وہ محفل وہ مے گسار کہاں
موت آ جائے تو غنیمت ہے
ان کے آنے کا اعتبار کہاں
آ کہ دو چار دن کی زندگی ہے
کوئی آتا ہے بار بار کہاں
میں تو لاہور سے چلا جاؤں
جائے گی فکر روزگار کہاں
کس کو صائب فراغ حاصل ہے
میں کہاں موسم بہار کہاں
صائب عاصمی
No comments:
Post a Comment