Tuesday, 10 November 2020

اول تو یہ دھج اور یہ رفتار غضب ہے

 اول تو یہ دھج اور یہ رفتار غضب ہے

تس پہ ترے پازیب کی جھنکار غضب ہے

کیونکر نہ تجھے دوڑ کے چھاتی سے لگا لوں

پھولوں کا گلے میں ترے یہ ہار غضب ہے

جب دیکھوں ہوں کرتی ہے مرے دل کو پریشاں

آشفتگیٔ طرۂ طرار غضب ہے

اے کاش یہ آنکھیں مجھے یہ دن نہ دکھاتیں

اس شوق پہ محرومیٔ دیدار غضب ہے

خورشید کا منہ ہے کہ طرف ہو سکے اس سے

یعنی وہ بر افروختہ رخسار غضب ہے

میں اور کسی بات کا شاکی نہیں تجھ سے

یہ وقت کے اوپر ترا انکار غضب ہے

اب تک حرم وصل سے محرم نہ ہوئے ہم

کعبے میں حجاب در و دیوار غضب ہے

گر ایک غضب ہو تو کوئی اس کو اٹھاوے

رفتار غضب ہے، تری گفتار غضب ہے

فرہاد بچا عشق سے، نے قیس، نہ وامق

جی لے ہی کے جاتا ہے یہ آزار غضب ہے

اے مصحفی اس شوق سے ٹک بچ کے تُو چلنا

سنتا ہے میاں وہ بت خوں خار غضب ہے


غلام ہمدانی مصحفی

No comments:

Post a Comment