Sunday, 1 November 2020

مثل صحرا ہے رفاقت کا چمن بھی اب کے

 مثل صحرا ہے رفاقت کا چمن بھی اب کے

جل بجھا اپنے ہی شعلوں میں بدن بھی اب کے

خار و خس ہوں تو شرر خیزیاں دیکھوں پھر سے

آنکھ لے آئی ہے اک ایسی کرن بھی اب کے

ہم تو وہ پھول جو شاخوں پہ یہ سوچیں پہروں

کیوں صبا بھول گئی اپنا چلن بھی اب کے

منزلوں تک نظر آتا ہے شکستوں کا غبار

ساتھ دیتی نہیں ایسے میں تھکن بھی اب کے

منسلک ایک ہی رشتے میں نہ ہو جائے کہیں

تِرے ماتھے تِرے بستر کی شکن بھی اب کے

بے گناہی کے لبادے کو اتارو بھی نصیر

راس آ جائے اگر جرم سخن بھی اب کے


نصیر ترابی

No comments:

Post a Comment