Friday, 4 March 2016

ہاتھ سے ناپتا ہوں درد کی گہرائی کو

ہاتھ سے ناپتا ہوں درد کی گہرائی کو
یہ نیا کھیل ملا ہے مِری تنہائی کو
تھا جو سینے میں چراغِ دلِ پُرخوں نہ رہا
چاٹیے بیٹھ کے اب صبر و شکیبائی کو
دلِ افسردہ کسی طرح بہلتا ہی نہیں
کیا کریں آپ کی اس حوصلہ افزائی کو
خیر بدنام تو پہلے بھی بہت تھے، لیکن
تجھ سے ملنا تھا کہ پر لگ گئے رسوائی کو
نگہِ ناز! نہ ملتے ہوئے گھبرا ہم سے
ہم محبت نہیں کہنے کے شناسائی کو
دل ہے نیرنگئ ایام پہ حیراں اب تک
اتنی سی بات بھی معلوم نہیں بھائی کو

احمد مشتاق

No comments:

Post a Comment