ہاتھ سے ناپتا ہوں درد کی گہرائی کو
یہ نیا کھیل ملا ہے مِری تنہائی کو
تھا جو سینے میں چراغِ دلِ پُرخوں نہ رہا
چاٹیے بیٹھ کے اب صبر و شکیبائی کو
دلِ افسردہ کسی طرح بہلتا ہی نہیں
خیر بدنام تو پہلے بھی بہت تھے، لیکن
تجھ سے ملنا تھا کہ پر لگ گئے رسوائی کو
نگہِ ناز! نہ ملتے ہوئے گھبرا ہم سے
ہم محبت نہیں کہنے کے شناسائی کو
دل ہے نیرنگئ ایام پہ حیراں اب تک
اتنی سی بات بھی معلوم نہیں بھائی کو
احمد مشتاق
No comments:
Post a Comment