Saturday, 27 March 2021

ایک دو اشک بہاتی ہے چلی جاتی ہے

 ایک دو اشک بہاتی ہے چلی جاتی ہے

اب تِری یاد بھی آتی ہے چلی جاتی ہے

وہ مِری دوست جسے بعد مِرے چاہا تھا

مجھ سے نظروں کو چُراتی ہے چلی جاتی ہے

کبھی دہشت نے بگاڑے تھے، پر اب تنہائی

خود مِرے بال بناتی ہے، چلی جاتی ہے

ثبت کر کے مِرے ماتھے پہ مِری ہو کی مہر

چاندنی درد بڑھاتی ہے، چلی جاتی ہے

یہ محبت بھی عجب چیز ہے زہرا زیدی

چند لمحوں کو سجاتی ہے چلی جاتی ہے


عروج زہرا زیدی

No comments:

Post a Comment