بے گانگی کا ابرِ گراں بار کھُل گیا
شب میں نے اس کو چھیڑا تو وہ یار کھل گیا
گلیوں میں شام ہوتے ہی نکلے حسین لوگ
ہر رہگزر پہ طبلۂ عیار کھل گیا
ہم نے چھپایا لاکھ مگر چھپ نہیں سکا
تھاعشرتِ شبانہ کی سرمستیوں میں بند
بادۂ سحر سے دیدۂ گلبار کھل گیا
آیا وہ بام پر تو کچھ ایسا لگا منیرؔ
جیسے فلک پہ رنگ کا بازار کھل گیا
منیر نیازی
No comments:
Post a Comment