کر کے ساگر نے کنارے مسترد
کر دیئے اپنے سہارے مسترد
شرمگِیں نظروں نے اس کی کر دئیے
میری آنکھوں کے اشارے مسترد
آپ کے آنچل میں سج کر جی اٹھے
تھے فلک پر جو ستارے مسترد
اس سے مل کر پھول شبنم چاندنی
ہو گئے سب استعارے مسترد
راہ دِکھلا ہی نہ آئیں جو درست
کر دئیے جائیں ایسے تارے مسترد
آپ سے مجھ کو ملی ہے داد اب
یعنی پچھلے شعر سارے مسترد
شاداب الفت
No comments:
Post a Comment