Tuesday 19 January 2021

لمحہ لمحہ اپنی زہریلی باتوں سے ڈستا تھا

 لمحہ لمحہ اپنی زہریلی باتوں سے ڈستا تھا

وہ میرا دشمن ہو کر بھی میرے گھر میں بستا تھا

باپ مَرا تو بچے روٹی کے ٹکڑے کو ترس گئے

ایک تنے سے کتنی شاخوں کا جیون وابستہ تھا

افواہوں کے دھوئیں نے کوشش کی ہے کالک ملنے کی

وہ بِکنے کی شے ہوتا تو ہر قیمت پر سستا تھا

اک منظر میں پیڑ تھے جن پر چند کبوتر بیٹھے تھے

اک بچے کی لاش بھی تھی جس کے کندھے پر بستا تھا

جس دن شہر جلا تھا اس دن دھوپ میں کتنی تیزی تھی

ورنہ اس بستی پر انجم بادل روز برستا تھا


انجم ترازی

No comments:

Post a Comment