نذرِ آلام ہوئے جاتے ہیں
ہم کہ ناکام ہوئے جاتے ہیں
ہو کے برباد محبت میں ہم
خوب بدنام ہوئے جاتے ہیں
ہجر تہوار سمجھتے ہیں ہم
اور دُشنام ہوئے جاتے ہیں
وہ بہت خاص ہے منواتے ہوئے
ہم بہت عام ہوئے جاتے ہیں
آج کل عشق و محبت والے
لوگ گمنام ہوئے جاتے ہیں
جام چھلکاتے ہوئے ہم میخوار
لقمۂ جام ہوئے جاتے ہیں
ایک آدم سے مؤلد ہو کر
لوگ اقوام ہوئے جاتے ہیں
نام اللہ کا جپتے ہوئے لوگ
دیکھیے رام ہوئے جاتے ہیں
کارِ بیکار میں الجھے ہیں سمیر
ہم کم آرام ہوئے جاتے ہیں
سمیر شمس
No comments:
Post a Comment